سوال
کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں اور وہ عذر دن میں ہی ختم ہو جائے تو مابقیہ یوم کا کیا حکم ہے کیا ان پر امساک یعنی کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا ضروری ہے یا نہیں اور امساک کا حکم کہا کہا ہوگا؟
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
کسی عذر کی وجہ سے روزہ نہ رکھ سکیں اور وہ عذر دن میں ہی ختم ہو جائے تو مابقیہ یوم ان پر امساک یعنی کھانے پینے اور جماع سے رکے رہنا ضروری ہے اور امساک کا حکم ان لوگوں کے لئے ہوگا۔
(١) روزہ چھوڑنے والا عذر سے ہو یا بلا عذرسے۔
بلا کسی عذر کے یا کسی عذر کی وجہ سے روزہ افطار کیا ہو پھر وہ عذردن میں ہی ختم ہو گیا ہو جیسے بیماری کی وجہ سے یا دشمنوں کے مقابلے کے لئے یا کسی اور عذر کی وجہ سے روزہ توڑدیا ہو اور پھر یہ غذر دن میں ہی ختم ہوجائے تو مابقیہ دن میں امساک ضروری ہے۔
(٢) مسافردن میں مقیم ہو جائے۔
یعنی کسی آدمی نے سفر کیا اور سفر کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا اب وہ دن میں ہی اپنے وطن لوٹ آیا تو اس پر مابقیہ دن امساک ضروری ہے۔
(٣) مریض جب تندرست ہو جائے۔
یعنی کسی بیماری کی وجہ سے اس نے روزہ نہیں رکھا تھا اب وہ بیماری دن میں ہی ختم ہو گئی تو مابقیہ دن اس پر امساک لازم ہے مریض اورمسافر پر امساک ضروری نہیں ہے لیکن علی الاعلان نہیں کھا سکتا کھانا پینا پردے میں رکھے۔
(٤)مجنون۔
جب افاقہ ہو جاۓ یعنی کوئی آدمی پاگل تھا اور اس نے اس پاگل پن کی وجہ سے روزہ نہیں رکھا پھر دن میں ہی وہ صحتمند ہوگیا تو اس پر مابقیہ دن امساک لازم ہے۔
(۵) حیض اور نفاس والی عورت۔
حیض اور نفاس والی عورت جب وہ پاک ہو جاۓ یعنی کسی عورت کو حیض کے ایام شروع تھے جس کی بناء پر وہ روزہ نہ رکھ سکی اب اس کا حیض دن میں ہی بند ہوگیا تو مابقیہ دن اس پر امساک لازم ہے، لیکن جب حیض اور نفاس کی مدت شروع ہو جاۓ روزے کی حالت میں تو امساک حرام ہیں اسلئے کہ ایسی حالت میں روزہ رکھنا حرام ہیں اور حرام کی مشابہت کرنا بھی حرام ہیں۔
(٦) بچہ جب بالغ ہو جائے۔
یعنی کوئی نابالغ بچہ دن میں بالغ ہوجائے تو اس پر مابقیہ دن امساک لازم ہے۔
( ۷ ) کافر جب اسلام لے آئے۔
یعنی کسی غیر مسلم نے ماہ رمضان میں درمیانی دن میں اسلام قبول کیا تو اس پر مابقیہ دن امساک لازم ہے کافر اور بچہ پر بعد البلوغ امساک ضروری ہے لیکن قضا لازم نہیں اور مابقیہ حضرات پر رمضان کے بعد قضا لازم ہیں۔
حاشیۃ الطحطاوی میں ہے۔
يجب) على الصحيح وقيل يستحب (الإمساك بقية اليوم على من فسد صومه) ولو بعذر ثم زال (وعلى حائض ونفساء طهرتا بعد طلوع الفجر) ومسافر أقام ومريض برأ ومجنون أفاق (وعلى صبي بلغ وكافر أسلم) لحرمة الوقت بالقدر الممكن (وعليهم القضاء إلا الأخيرين) الصبي إذا بلغ والكافر إذا أسلم لعدم الخطاب عند طلوع الفجر عليهما وعلمت الخلاف في إفاقة المجنون ۔۔۔۔۔۔
أي تشبها لقضاء حق الوقت قوله ولو بعذر ثم زال كقتال عدو وحمى زالا قوله: "وعلى حائض ونفساء طهرتا وأما في حالة تحقق الحيض والنفاس فيحرم الإمساك لأن الصوم منهما حرام والتشبه بالحرام حرام وكذلك لا يجب الإمساك على المريض والمسافر لأن رخصة الإفطار في حقهما باعتبار الحرج ولو ألزمناهما لتشبه لعاد الشيء على موضوعه بالنقض ولكن لا يأكلون جهرا بل سرا كذا في الشرح قوله لحرمة الوقت علة لوجوب الإمساك في الجميع قوله۔ (حاشیۃ الطحطاوی ص ٦٧٨)
الخلاصة الفقيه على مذهب السادة الحنفيۃ میں ہے۔
يجب الامساك بقية اليوم على : من فسد صومه ولو بعذر ثم زال كقتال عـدو وحـمـي وعـلـى حـائـض و نـفـسـاء طـهـرتـا بعد طلوع الفجر ...... ومسافر أقام .... ومـريـض بـرأ ...... ومـجـنـون أفـاق ....... و كافراسلم۔ الخلاصة الفقيه على مذهب السادة الحنفيه ١/۵١٤ و خلاصة الدلائل ٢٤٩/١ )۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں