سوال
روزے کی حالت میں بیوی سے بوس و کنار کرنا، ایک بستر پر لیٹنا، اور معانقہ کرنا کیسا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اس سلسلے میں تفصیل اس طرح سے ہے کہ روزے کی حالت میں اپنے اوپر اعتماد نہ ہونے کی صورت میں میاں بیوی کا ایک بستر پر لیٹنا اسی طرح بوس و کنار کرنا، یا ہونٹوں پر بوسہ لینا یا ایک دوسرے کے اعضاءِ مستورہ کو چھونا جائزہے، لیکن اپنے اوپر اعتماد نہ ہونے کے باوجود بلا کپروں کے لیٹنا اسی طرح بوس و کنار کرنا، یا ہونٹوں پر بوسہ لینا یا ایک دوسرے کے اعضاءِ مستورہ کو چھونا سب مکروہ ہے۔
اور اگر روزے کی حالت میں بوس و کنار کی وجہ سے اگر منی خارج ہوجائے تو روزہ فاسد ہوجائے گا، قضا لازم آئے گی، کفارہ لازم نہیں ہوگا، اور اگر اس دوران جماع (ہم بستری) کرلے تو قضا کے ساتھ کفارہ بھی لازم آئے گا، البتہ اگر منی خارج نہیں ہوئی صرف مذی (منی کی طرح لیس دار مادہ) نکلی تھی تو روزہ فاسد نہیں ہوا۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو اور اپنے اوپر پورا اعتماد ہو تو بیوی سے بوس و کنار کرنا، ایک بستر پر لیٹنا، اور معانقہ کرنا سب جائز ہے اور خود پر اعتماد نہ ہو یا آپ جوان ہوں تو روزے کے دوران بوس وکنار سے اجتناب کریں۔
الفقه الحنفي في ثوبه الجديد میں ہے۔
يكره للصائم فعل مقدمات الجماع ودواعيه كالقبلة والمعانقة والمس إذا لـم يـأمـن الـوقوع في مفسد الصوم وهو الإنزال أو الجماع وفي الصحيحين عن عائشة قـالـت كـان رسـول الـلـه صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه أملككم لإربه ـ الفقه الحنفي في ثوبه الجديد ٤٢٢/١)
البحر الرائق میں ہے۔
واللمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة ولا كفارة عليه لأنها تفتقر إلى كمال الجناية لما بينا أن الغالب فيها العقوبة لأن الكفارة لجبر الفائت وهو قد حصل فكانت زاجرة فقط ولهذا تندرئ بالشبهات. ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه الجماع والانزال، ويكره إذا لم يأمن لأن عينه ليس بمفطر ربما يصير فطرا بعاقبته، فإن أمن اعتبر عينه وأبيح له، وإن لم يأمن اعتبر عاقبته ويكره له والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة، واختار في فتح القدير رواية محمد لأنها سبب غالب للانزال، وجزم بالكراهة من غير ذكر خلاف الولوالجي في فتاواه، ويشهد للتفصيل المذكور في القبلة الحديث من ترخيصه للشيخ ونهيه الشاب والتقبيل الفاحش كالمباشرة الفاحشة وهو أن يمضغ شفتيها۔ (البحر الرائق ٢/٤٧٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں