سوال
روزے کی حالت میں قے ہو جائے تو کیا حکم ہے؟ آیا روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟ اسی طرح اگر کسی نے جان بوجھ کر قے کی تو روزے کا کیا حکم ہے؟ اور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
اگر کسی شخص کو روزے کی حالت میں قے (اُلٹی) ہو جائے تو اس کی چند صورتیں ہو سکتی ہیں:
(١) قے خود بخود ہوئی ہو تو تھوڑی قے ہوئی ہو یا زیادہ اس کا حکم یہ ہے کہ اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
(٢) قے خود بخود نہیں ہوئی، بلکہ قصداً قے کی ہے اور منھ بھر قے ہوئی ہے تو روزہ ٹوٹ گیا، اور منہ بھر کر نہیں کی تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
(٣) قے منہ بھر کر ہوئی اور ساری قے یا اس میں سے چنے کی مقدار یا اس سے زائد کو روزہ یاد ہوتے ہوئے خود جان بوجھ کر اپنے اختیار سے اندر اتار دیا تو اس سے روزہ فاسد ہو جا ئے گا، اور اگر چنے کی برابر یا اس سے زائد جان بوجھ کر عمداً واپس نہ لوٹالے بلکہ خود ہی لوٹ جائے تو روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
(٤) تھوڑی سی قے آئی پھر خودہی حلق میں لوٹ گئی یا قصداً اسے نگل لیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا البتہ اگر منہ بھر کر قے ہوئی اور اسے قصداً لوٹا لیا تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا۔
فتاوی شامی میں ہے۔
وإن ذرعہ القيء وخرج ولم یعد لا یفطر مطلقاً ملأ أو لا، فإن عاد بلا صنعہ ولو ہو ملأ الفم مع تذکرہ للصوم لا یفسد، خلافاً للثاني، وإن أعادہ أفطر إجماعًا إن ملأ الفم وإلا لا، ہوالمختار۔ وإن استقاء أي طلب القي عامداً أي متذکرًا لصومہ إن کان مِلء الفم فسد بالإجماع مطلقًا، وإن أقل لا، عند الثاني وہو الصحیح۔ لکن ظاہر الروایۃ کقول محمدؒ إنہ یفسد کما في الفتح عن الکافي۔ (الدر المختار کتاب الصوم / باب ما یفسد الصوم وما لا یفسدہ، ۳۹۲/٣)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
إذا قاء أو استقاء ملء الفم أو دونہ عاد بنفسہ أو أعاد أو خرج فلا فطر علی الأصح إلا فی الإعادۃ، والاستقاء بملء بشرط ملء الفم۔ (فتاوی عالمگیری ۱/۲۰٤)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں