سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
ناتجربہ کار ڈاکٹر یا حکیم جو عموماً دیہاتوں میں کلینیک چلاتے ہیں، جنکے پاس کوئی لائیسنس نہیں ہوتا معمولی تجربہ ہوتا ہے، انکا پیشہ اور آمدنی حلال شمار ہوگی یا حرام؟؟؟
سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات الہند
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فرضی ڈگری بنواکر لوگوں کو دھوکہ دینا غلط ہے، اور جھوٹ اور دھوکہ دہی شرعاً وقانوناً جرم ہیں، اس لیے اس سے بچنا چاہیے، جہاں تک ایسے ڈاکٹروں کی کمائی کا تعلق ہے تو اگر انھوں نے کسی ماہر اور تجربہ کار ڈاکٹر کے پاس رہ کر مرض کی تشخیص وعلاج کا طریقہ اچھی طرح سیکھ لیا ہے تو ان کی کمائی حلال ہے۔
حضرت مولانا خالد سیف اللہ رحمانی صاحباپنے ایک مضمون معالج مقام و ذمہداریاں میں تحریر فرماتے ہیں کہ معالج کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ اس نے اپنے فن کو باضابطہ طورپر پڑھا ہو ، محض چند سنی سنائی باتوں پر علاج شروع کردینا درست نہیں ، رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جس نے طب کا علم حاصل نہ کیا ہو ، وہ علاج کرے تو وہ نقصان کا ضامن ہوگا ، من تطب ولم یعلم منہ قبل ذلک الطب فہو ضامن ( ابوداؤد : ۲؍ ۶۳۰) ، اسی لئے فقہاء نے ایسے طبیبوں پر پابندی لگانے کا حکم دیا ہے ( بدائع الصنائع : ۷؍۱۶۹) ، ناواقف طبیب سے مراد وہ شخص ہے جس میں بیماری اور اس کی دوا کو سمجھنے کی صلاحیت نہ ہو ، دواؤں کے اثرات سے واقف نہ ہو ، نیز دوائیں دے دیتا ہواور اس کے ری ایکشن کو روکنے والی دواؤں کا علم نہ رکھتا ہو ، یسقی الناس دواء مہلکا ولایقدر علی ازالۃ ضرر دواء اشتد تاثیرہ علی المرضی ، ( الفقہ الاسلامی وادلتہ : ۵؍۴۴۹) ، لہٰذا ایسے ناواقف اور کوتاہ علم طبیب کی کوتاہیاں قابل ضمان ہوںگی اور ان کو سزا دی جائے گی ، یہ سزا جسمانی سرزنش بھی ہوسکتی ہے ، قید بھی اور خوں بہا بھی ۔ ( بدایۃ المجتہد : ۲؍۲۳۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں