سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ایک سوال ھیکہ ھندہ کی تین اولاد ھے
1قاسم 2طیب 3 طاہر ایک رضاعی لڑکی ھے فاطمہ جس نے طاہر کے ساتھ ھندہ کا دودھ پیا ھے
سوال یہ ھیکہ قاسم کا نکاح فاطمہ سے ھو سکتا ہے ؟ اگر نکاح کرلیا ہے تو کیا حکم رھیگا
نوٹ: دودھ پلانے کا کوئی مرد گواہ نہیں ہے صرف عورتیں ہی گواہ ھے تو نکاح کا کیا حکم جواب عنایت فرمائے اور عنداللہ ماجور ہو
سائل: مولانا عمر فاروق غریبا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
رضاعت کا ثبوت اس وقت ہوتا ہے جب مدت رضاعت (دو سال)میں اس عورت کا دودھ اس بچے کے پیٹ میں پہنچ جائے چاہے دودھ تھوڑی مقدار میں ہو یا زیادہ مقدار میں ،لہذا اگر کسی بچے نے دو سال کے بعد دودھ پی لیا تو حرمت رضاعت ثابت نہ ہو گی ۔
حرمت رضاعت دوچیزوں سے ثابت ہوگی
(١) بینہ سے یعنی دو عادل مرد یا ایک عادل مرد اور دو عورتیں گواہی دیں، گواہ نہ ہونے کی صورت میں صرف ایک مرد یا ایک عورت یا صرف عورتوں کے دعوی سے حرمت رضاعت ثابت نہیں ہوگی اس لئے کہ خالص عورتوں کی گواہی رضاعت کے ثبوت کے لئے کافی نہیں ہے۔
(٢) اقرار سے یعنی اگر دودھ پلانے والی دعوی کرے اس نے دو سال سے کم عمر میں میرا دودھ یقینی طور پر پیاہے اور لڑکے نے مدت رضاعت (دو سال)میں دودھ پینے کا اقرار کیا تو حرمت رضاعت ثابت ہوگی ۔لیکن اگر وہ دودھ پینے سے انکار کرتا ہو یا اس کو علم نہ ہو تو عورت کے اس دعوی سے حر مت رضاعت ثابت نہیں ہوگی۔
صورت مسئولہ میں اگر اقرار یا بینہ سے رضاعت ثابت ہوجائے تو آپس میں نکاح درست نہیں ہے اور اگر کرلیاہے تو علاحدہ ہونا ضروری ہے اور اس معاملے میں عورتوں کی گواہی کے ساتھ مرد کا بھی ہونا ضروری ہے اگر صرف عورتیں گواہ ہو تو ان کی گواہی کا اعتبار نہیں ہوگا۔
فتح القدیر میں ہے۔
قوله قليل الرضاع وكثيره سواء إذا تحقق في مدة الرضاع تعلق به التحريم وبه قال مالك أما لو شك فيه بأن أدخلت الحلمة في فم الصغير وشكت في الارتضاع لا تثبت الحرمة بالشك۔ (فتح القدیر کتاب الرضاع ٣/٣٠٤)
فتاوی ہندیہ میں ہے۔
الرضاع يظهر بأحد أمرين أحدهما الإقرار والثاني البينة كذا في البدائع ولا يقبل في الرضاع إلا شهادة رجلين أو رجل وامرأتين عدول۔ (كتاب الرضاع ١/٣٤٧ دار الفكر)
خلاصۃ الفتاوی میں ہے۔
ولا يجوز شهادة امرأة واحدة على الرضاع أجنبية كانت أو أم أحد الزوجين، فإن وقع فى قلبه صدق المخبر فالأفضل أن يتنزه قبل العقد و بعده يسعها المقام معه حتى يشهد على ذلك رجلان أورجل وامرأتان عدول، ولا يقبل شهادة النساء وحدهن۔ (كتاب النكاح،فصل الرابع فى الرضاع:٢/١١ ط:رشيدية)
فتاوی تنقیح الحامدیہ میں ہے۔
(سئل) في شهادة النساء وحدهن على الرضاع هل تقبل؟ (الجواب) : حجة الرضاع حجة المال وهو شهادة عدلين أو عدل وعدلتين ولا يثبت بشهادة النساء وحدهن لكن إن وقع في قلبه صدق المخبر ترك قبل العقد أو بعده كما في البزازية.(أقول) أي ترك احتياطا۔ (كتاب النكاح باب الرضاع ١/٣۵ ط دارالمعرفة)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں