ہفتہ، 23 اپریل، 2022

مال مستفاد پر زکوۃ کا حکم سوال نمبر ٢٩٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسٸلہ یہ ہیکہ کسی نے درمیانی سال میں کھیت بیچا اور اس کی رقم بھی آٸی تو اس پر زکوة ہوگی یانہیں؟

سائل: محمد ارباز سھارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صورت مسئولہ میں اگر وہ شخص پہلے سے صاحب نصاب تھا اور اس پر زکوۃ واجب تھی پھر درمیان سال میں کھیت فروخت کیا ہے اور وہ مال حاصل ہوا ہے تو یہ مال مال مستفاد کی قبیل سے ہیں اور مال مستفاد یعنی درمیان سال میں جو مال کسی بھی اعتبار سے حاصل ہو اس کا حکم یہ ہے کہ اگر پہلے سے اس پر زکوۃ فرض تھی اور اس کے بعد اس کو یہ مال حاصل ہوا ہے تو اس کو بھی اسی نصاب سے ملا کر زکوۃ نکالنا لازم ہوگی لہذا مز کی ( زکوۃ دینے والا اپنی زکوۃ دینے کی تاریخ اور مہینہ متعین کر لے اسکے بعد سال کے درمیان جتنا بھی مال حاصل ہوتا رہے سونا چاندی یا نقد رقم سے یا مال تجارت سے ان سب کو ملا کر زکوۃ اپنی متعینہ تاریخ میں نکالے گا۔


اور اگر پہلے سے اس پر زکوۃ فرض نہیں ہے تو اس مال پر زکوۃ واجب ہونے کے لئے سال کا گزرنا ضروری ہے۔


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

عالمگیری میں ہے ومن كان له نصاب فاستفاد في اثناء الحول مالا من جنسه ضمه الى ماله وزكـاه المستفاد من نمائه اولا وبأى وجه استفاد ضمہ۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٧٥)۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: