جمعرات، 7 اپریل، 2022

ایک مسجد میں اوپر نیچے تراویح کی جماعت کرنا سوال نمبر ٢٧٦

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسئلہ یہ ہے کہ ایک  ہی مسجد میں اوپر نیچے دو الگ الگ جماعت کرنا کیسا ہے؟ کیا یہ بھی فرض نماز کی جماعت کے حکم میں ہوگا؟

در اصل اس بارے میں دو الگ الگ رجحان دیکھنے میں آئے ہیں ایک طرف جامعہ بنوری ٹاؤن کا فتویٰ ہے کہ فتنے کا اندیشہ نہ ہو اور فرض نماز ایک جماعت سے ہو تو گنجائش ہے؟

جب کہ دوسری طرف فتاویٰ قاسمیہ میں ہے کہ تراویح کی جماعت کا حکم فرض نماز کی جماعت کی طرح ہی ہے لھذا ایک ہی مسجد میں دو الگ الگ جماعت کرنا مکروہ ہو گا؟

لھذا اس بارے میں ہمارے مفتیان کرام کا رجحان کیا ہے؟ آج کل کے احوال کو دیکھتے ہوئے، مدلل طور پر جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔

سائل: محمد حمدان


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ایک ہی مسجد میں متعدد تراویح کے سلسے میں فقہاء کے اقوال مختلف ہے کسی نے اس کو مکروہ لکھاہے اور کسی نے اس کو جائز لکھا ہے


وہ حضرات جنہوں نے مطلقاً تراویح کی جماعت ثانیہ کو مکروہ لکھا ہے۔


کتاب النوازل میں ہے۔

کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصور پوری ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ایک مسجد میں بیک وقت دو جگہ تراویح کی نماز ادا کرنا مثلاً ایک جماعت اوپر کی منزل میں اور دوسری نیچے کی منزل میں ہو، مکروہ ہے۔ اسی طرح یکے بعد دیگرے ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعتیں کرنا بھی مکروہ ہے، بہتر ہے کہ اس سے احتراز کیا جائے۔ (مستفاد: کتاب المسائل ۱؍۴۸۵، احسن الفتاویٰ ۳؍۵۲۶، فتاویٰ محمودیہ ۷؍۲۷۳ ڈابھیل)

ولو صلی التراویح مرتین في مسجد واحد یکرہ۔ (خانیۃ علی الہندیۃ ۱؍۲۳۴)

ولو صلی التراویح في مسجد واحد مرتین في لیلۃ واحدۃ یکرہ۔ (فتاویٰ النوازل ۹۵)  (کتاب النوازل ۵/٨١)


کتاب النوازل میں ہے۔

اسی طرح ایک اور جگہ تحریر فرماتے ہیں کہ مسجد میں جماعت ثانیہ مطلقاً مکروہ ہے ، اس میں تراویح بھی شامل ہے؛ لہذا ایک مسجد میں اوپر نیچے تراویح کی دو جماعت درست نہیں اس لئے تمام لوگوں کومل کر ایک مسجد میں ایک ہی جماعت کرنی چاہئے، تاکہ عبادت کے لئے کسی مکروہ کا ارتکار لازم نہ آئے، اگر حفاظ کی کثرت ہے تو ایک جماعت میں یا تو باری باری سنانے کا نظم کر لیا جاۓ یا پھر مسجد کے علاوہ گھر یافرم میں تراویح کی جماعت کا انتظام کر لیں ۔ ( مستفاد : احسن الفتاوی ۵۲۲/۳ ، فتاوی رحیمیه ۲۹۵/۷ )

 و في القنية : إمام يصلي التراويح على سطح المسجد اختلف في كراهيته والأولى أن لايصلي فيه عند العذر فكيف بغيره . ( كبيري ٣٩٢ )

 عن عبد الرحمن ابن عبد ن القاري أنه قال : خرجتُ مع عمر بن الخطاب لـيـلـة فـي رمـضـان إلى المسجد فإذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه ويـصـلـي الـرجـل فيصلي بصلوته الرهط . فقال عمر : إني أرى لو جمعت هؤلاء عـلـى قـارئ واحد لكان أمثل ثم عزم فجمعهم على أبي بن كعب رضي الله عنه . ( صحيح البخاري ٢٦٩/١ ) (کتاب النوازل ۵/٧٧)


فتاوی قاسمیہ میں ہے۔

حضرت مفتی شبیر احمد صاحب مرادآبادی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ایک مسجد میں بیک وقت تراویح کی ایک ہی جماعت ہونی ضروری ہے ، الگ الگ دو جماعت کرنا مکروہ ہے؛ لہذا پہلی جماعت جو مسجد کی اصل محراب میں ہورہی ہے وہ بلا کراہت درست ہے اور اس کے علاوہ دوسری جماعت جو کہ اوپر کی منزل میں ہوئی ہے وہ مکروہ ہوگی ۔ ( مستفاد : احسن الفتاوی ۳ / ۵۲۶ )

ولوصلى التراويح مرتين في مسجد واحد يكره۔ (هندية، الباب التاسع في النوافل، زكريا قديم ١/١١٦ جدید ١/١٧٦، قاضيخان على هامش الهندية، الصلاة ، قبيل فصل في مقدار التراويح، زكريا ١/ ٢٣٤، زكريا جديد ١/١٤٥ ) (فتاوی قاسمیہ ٢/٢٧٢)

 

فتاوی قاسمیہ میں ہے۔

اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ایک مسجد میں تراویح کی دو جماعتیں چاہے اوپر نیچے دو منزل میں الگ الگ ہوں یا ایک منزل میں الگ الگ ، بہر صورت مکروہ ہے لہذا ایک مسجد میں ایک ہی جماعت ہونی چاہئے ، جن لوگوں کو سفر وغیرہ کی بنا پر دس دن میں قرآن سننے کی ضرورت ہو وہ کسی دوسری مسجد یا کسی ہال میں تین تین پاروں کا الگ سے انتظام کر لیں ۔ ( مستفاد : احسن الفتاوی ۵۲۶ / ۳ )

ولوصلى التراويح مرتين في مسجد واحد يكره۔ (هندية، الباب التاسع في النوافل، زكريا قديم ١/١١٦ جدید ١/١٧٦، قاضيخان على هامش الهندية، الصلاة ، قبيل فصل في مقدار التراويح، زكريا ١/ ٢٣٤، زكريا جديد ١/١٤٥ )۔  (فتاوی قاسمیہ ٢/٢٧٣)


احسن الفتاوی میں ہے۔

مسجد میں جماعت کا تعددمکروہ ہے اور اسکا عموم جماعت تراویح کو بھی شامل ہے لہذا یہ بھی مکروہ ہے، خواہ ایک ہی وقت میں تراویح کی متعدد جماعتیں ہوں یا مختلف اوقات میں ہوں ، فقط واللہ تعالی اعلم ۲۳ محرم سنہ ۱۴۰۱۔ (احسن الفتاوی ٣/۵٢٦)


وہ حضرات جو ضرورت کے وقت تراویح میں جماعت ثانیہ کی گنجائش بیان فرماتے ہیں۔


دارالعلوم دیوبند کے آن لائن دارالافتاء میں اس طرح کے سوال کے جواب میں درج ہے کہ: ایک مسجد میں اگر تراویح کی اوپر نیچے دوجماعت ہو اوردونوں کی آوازباہم نہ ٹکرائے تو بعض حضرات اکابر نے اس طور پر دوجماعت کی گنجائش دی ہے تاہم مکروہِ تنزیہی ضرورہے؛ اس لیے بہتر شکل یہی ہے کہ مسجد میں عشا کی نماز کے بعد تراویح کی دوسری جماعت خارجِ مسجد کسی بڑے کمرے یا ہال وغیرہ میں ادا کی جائے، سخت مجبوری کی صورت میں ہی جبکہ دوسری جگہ تراویح کی جماعت کا نظم نہ ہوسکے مسجد میں دوسری جماعت کی جائے،اور شرطِ مذکور کا خیال رکھا جائے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ١٧٠٤۵٢)


اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں درج ہے کہ: بہتر تو بہرحال یہی ہے کہ ایک مسجد میں تراویح کی مثل فرض نماز کے ایک ہی جماعت ہو تاہم اگر کسی درجہ میں ضرورت ہو اور سب نمازی فرض عشاء ایک ہی امام کی اقتداء میں ادا کرکے تراویح کی دوسری جماعت کچھ مقتدی کرلیں اوردونوں جماعتوں کی آوازوں میں ٹکراو نہ ہوتا ہو اوردوسری جماعت کسی نفسانیت کی بنیاد پر نہ ہو اور کسی قسم کے مفسدہ کا بھی اندیشہ نہ ہو اور باہم مشورہ سے دوسری جماعت کریں توگنجائش ہے بعض کتب فتاوی مثل فتاوی محمودیہ، امداد الاحکام وغیرہ سے اس کا ثبوت ہوتا ہے۔ (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ۵٤١٧٦)


امداد الاحکام میں ہے۔

امداد الاحکام میں حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: تراویح کے تکرارفی المسجد کے متعلق کوئی جزئیہ نہیں ملا، دوسری جگہ تحقیق کر لیا جاوے محض رکن الدین پر اعتماد نہ کیا جاوے ، البتہ مزید احتیاط کی بنا پر جگہ بدل لیا کریں، تاکہ تکرار مکروہ ہونے کی صورت میں بھی کراہت مرتفع ہو جاوے اور با وجود تبدیل ہئیت تکرار جماعت فرض تو مکروہ ہے، لیکن تراویح میں بر بناء قول ابو يوسف تبدل ہئیت سے تکرار مکروہ نہ رہے گا 

عن ابی یوسف انه اذالم تكن الجماعة على الهيئة الاولی لا تكره والا تكره وهو الصحيح وبالعدول عن المحراب تختلف الھیئۃ كذا فى البزازية (شامی ص ٥٧٨ ج ١) 

اور امام بو یوسف کا قول مذکور گو عام ہے لیکن فرائض میں اس پر فتوی نہیں دیا جاتا اور تراویح میں فرائض سے توسع ہے، اس لئے تراویح میں اس پر عمل کی گنجائش ہے، اور یہ کلام اس تکرار میں ہے جو امام آخر اورمقتدین آخرین کے ساتھ ہو ، اور اگر پہلا امام اور پہلے مقتدی ہی تکرار کریں تو وہ مطلقاً مکروہ ہو ، خواہ مسجد میں ہو یا غیر مسجد میں ہو۔ (امداد الاحکام ١/٦٣٤)


امداد الفتاوی میں ہے۔

امداد الفتاوی میں مجدد ملت حضرت علامہ اشرف علی صاحب تھانوی ایک سوال کے جواب میں رقم طراز ہیں کہ: ایک مسجد میں دو جگہ تراویح پڑھنا بشرطیکہ از راہ نفسانیت نہ ہو اور ایک کا دوسرے سے حرج نہ ہو جائز ہے مگر افضل یہی ہے کہ ایک ہی امام کے ساتھ سب پڑھیں۔

في البخاري عن عبدالرحمن ابن عبدالقارى انه قال خرجت مع عمر بن الخطاب ليلة في رمضان الى المسجد فاذا الناس أوزاع متفرقون يصلي الرجل لنفسه يصلي الرجل ویصلی بصلوتہ الرهط فقال انى ارى لوجمعت هؤلاء على قارئ واحد لكان امثل ثم عزم فجمعهم على ابی بن كعب الحديث (جلد اول ص ۲٦۹)

اس روایت سے ثابت ہوا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے متفرق پڑھنے والوں پر تشنیع نہیں فرمائی پس معلوم ہوا کہ یہ جائز ہے اور ایک امام کے ساتھ پڑھنے کو افضل فرمایا ہے ۔ اس سے معلوم ہوا کہ افضل یہی ہے ۔ واللہ اعلم ۔ ۲۴ ذی الحجه ۱۳۰۰ ھ۔ (امداد ۱۹ ج ۱ )۔ (امداد الفتاوی ١/٣٧٠)


خلاصہ

جماعت ثانیہ فی التراویح کے سلسلہ میں چونکہ ہمارے اکابرین کی رائے مختلف ہے کسی نے مطلق مکروہ کہا ہے اور کسی نے کچھ شرائط پر مبنی جواز کو بیان کیا ہے ان سب فتاوی کو سامنے رکھتے ہوئے یہ نتیجہ نکال سکتے ہیں کہ عام حالات میں بلا ضرورت مسجد میں تراویح کی جماعت ثانیہ مکروہ ہے بلکہ بہتر تو بہرحال یہی ہے کہ ایک مسجد میں فرض نماز کی مثل تراویح کی ایک ہی جماعت ہو، تاہم اگر کسی درجہ میں ضرورت ہو اور سب نمازی فرض عشاء ایک ہی امام کی اقتداء میں ادا کرکے تراویح کی دوسری بھی جماعت کرلیں اور دونوں جماعتوں کی آوازوں میں ٹکراؤ نہ ہوتا ہو اور دوسری جماعت کسی نفسانیت کی بنیاد پر نہ ہو اور کسی قسم کے مفسدہ کا بھی اندیشہ نہ ہو اور باہم مشورہ سے  دوسری جماعت کریں تو گنجائش ہے، لیکن افضل اور بہتر تو یہی ہے کہ ایک مسجد میں ایک ہی امام کے پیچھے تراویح پڑھی جائے، اور دوسری جماعت خارجِ مسجد مثلاً مدرسہ، مکان یا ہال وغیرہ میں کسی بھی جگہ تراویح کی جماعت کا اہتمام کیا جائے، ھذا ما عندی واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: