سوال
السلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
مفتی صاحب مسٔلہ یہ ہے کہ ایک شخص کے پاس دس لاکھ روپیہ قرض ہے، اور ان کے پاس ٤ بیگہ زمین ہے صرف بارش کے پانی سے کھیتی ہوتی ہے اور ان کی اہلیہ کے پاس ایک تولہ سونا ہے اور ان کے پاس ایک گھر تھا اور ابھی ایک نیا گھر بنایا ہے ۔ ان کا ایک شادی شدہ لڑکا ہے جو ابھی اس گھر کا مالک نہیں بنایا ہے، تو کیا وہ زکوٰۃ کے مستحق ہیں؟
سائل: عبداللہ ابن عبد اللہ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
زکوۃ کا مستحق وہ شخص ہے جو غریب اور ضروت مند ہے اور اس کی ملکیت میں اس کی ضرورتِ اصلیہ سے زائد اتنی رقم یا سامان نہیں ہے جس کی قیمت نصاب کے برابر ہو، تو اس شخص کے لیے زکاۃ لینا جائز ہے، اور اس کو زکاۃ دینے سے زکاۃ ادا ہوجائے گی۔
اسی طرح کسی شخص کے پاس اتنی رقم یا سامان موجود نہیں ہے، یا رقم موجود تو ہے، لیکن اس پر اتنا قرض ہے کہ اگر وہ الگ کیا جائے تو اس کے پاس نصاب سے کم رقم بچے تو ایسے شخص کو زکاۃ دی جاسکتی ہے۔ نیز کسی مستحق مقروض کو قرض ادا کرنے کے لیے زکاۃ دینا مستحسن اور باعثِ ثواب بھی ہے۔
مذکورہ صورت میں نیاء گھر بغرض آمدنی یا لڑکے کے لیے بنانا مقصود ہے یعنی جب نیاء گھر تعمیر ہوجائے گا تو پورانا گھر کی ضروریات کے لئے کریہ پر دیں گے یا لڑگا شادی شدہ ہے اس لئے تنگی محسوس ہو رہی ہے جس کی وجہ سے بنارہے ہیں تو یہ ضرورت کی قبیل سے ہے اب سوال میں مذکور اشیاء کے علاوہ اس کے پاس کچھ بھی نہیں ہے اور قرض کی مقدار اتنی بڑھی ہوئی ہے کہ قرض الگ کر نے کے بعد نصاب باقی نہیں رہتا تو ایسے شخص کو قرضہ کی ادائیگی کے لیے زکوة دینا درست ہے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
لا بأس أن يعطى من الزكاة من له مسكين، وما يتأثث به في منزله وخادم وفرس وسلاح وثياب البدن وكتب العلم إن كان من أهله، فإن كان له فضل عن ذلك تبلغ قيمته مائتي درهم حرم عليه أخذ الصدقة، لما روي عن الحسن البصري قال: كانوا: يعني الصحابة يعطون من الزكاة لمن يملك عشرة آلاف درهم من السلاح والفرس والدار والخدم، وهذا لأن هذه الأشياء من الحوائج اللازمة التي لا بد للانسان منها. وذكر في الفتاوى فيمن له حوانيت ودور للغلة لكن غلتها لا تكفيه وعياله أنه فقير ويحل له أخذ الصدقة عند محمد، وعند أبي يوسف: لا يحل، وكذا لو له كرم لا تكفيه غلته، ولو عنده طعام للقوت يساوي مائتي درهم، فإن كان كفاية شهر يحل أو كفاية سنة قيل لا يحل، وقيل يحل لأنه مستحق الصرف إلى الكفاية فيلحق بالعدم ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وفي التتارخانية عن التهذيب: أنه الصحيح وفيها عن الصغرى له دار يسكنها لكن تزيد على حاجته بأن لايسكن الكل يحل له أخذ الصدقة في الصحيح وفيها سئل محمد عمن له أرض يزرعها أو حانوت يستغلها أو دار غلتها ثلاث آلاف ولاتكفي لنفقته ونفقة عياله سنة؟ يحل له أخذ الزكاة وإن كانت قيمتها تبلغ ألوفا وعليه الفتوى وعندهما لايحل اهـ ملخصًا۔ (فتاوی شامی ٣/٢٩٦)
الدر المختار میں ہے۔
ومدیون لا یملک نصاباً فاضلاً عن دینہ ، وفی الظھیریة: الدفع للمدیون أولی منہ للفقیر (الدر المختار کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳/۲۸۹)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں