سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام مسألہ ذیل کے بارے میں مسألہ یہ ہے کہ نماز میں قرات کے درمیان ٣ مرتبہ یا اس سے زیادہ سبحان الله کہنے کے بقدر ٹھیرنے سے نماز کا کیا حکم ہوگا؟
سائل محمد شاھد پالن پوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
امام یا منفرد نماز کے دوران قراءت میں ایک رکن کی مقدار (تین تسبیحات) خاموش رہے اور سوچتار ہے تو اتنی مقدار سوچنے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہوگا، سجدہ سہو کی ادائیگی سے نماز ہوجائے گی،اور اگر اس سے کم سوچا یا تلاوت جاری رکھتے ہوئے سوچا تو سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے۔
قال الشامی: والحاصل أنہ اختلف فی التفکر الموجب للسہو، فقیل مالزم منہ تأخیر الواجب أو الرکن عن محلہ بأن قطع الاشتغال بالرکن أو الواجب قدر أداء رکن وہو الأصح (شامی: ۲/۵۶۲، ط: زکریا دیوبند)
حاشية الطحطاوي میں ہے۔
قوله وجب عليه سجود السهو إذا شغله التفكر عن أداء واجب بقدر ركن ۔۔۔۔۔۔۔ يجب السهو وإلا فلا، كذا في الشرح ولم يبينوا قدر الركن وعلى قياس ما تقدم أن يعتبر الركن مع سنته وهو مقدر بثلاث تسبيحات ثم أن محل وجوب سجود السهو إذا لم يشتغل حالة الشك بقراءة ولا تسبيح أما إذا اشتغل بهما فلا سهو عليه وظاهر إطلاقهم عدم الوجوب عند الإشتغال بما ذكر ولو كان غير محل لهما۔ ( حاشية الطحطاوي علي مراقي الفلاح باب سجود السهو، ١/ ٤٧٤)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں