اتوار، 17 اپریل، 2022

وہ اعذار جن کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا مباح ہے۔ سوال نمبر ٢٩٤

 سوال

وہ اعذار کون سے ہیں جن کی وجہ سے روزہ نہ رکھنا یا رکھا ہوا ہو تو توڑ دینا مباح اور جائز ہے؟ 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


وہ اعذار یہ ہے۔

اکراہ

روزہ دار کو زبردستی یعنی عملًا جبر کرکے یا مارنے کی دھمکی دے کر کچھ کھلا یا پلادیا تو اس سے  اس کا روزہ فاسد ہوجائے گا، اور اگر روزہ توڑنے پر مجبور کیا گیا تو اسے اختیار ہے کہ روزہ توڑ دے صرف قضا لازم ہوگی، کفارہ لازم نہیں ہوگا۔


مریض

اگر روزہ دار اچانک بیمار ہوجائے اور اندیشہ ہو کہ روزہ نہ توڑا تو جان کا خطرہ ہے، یا بیماری کے بڑھ جانے یا دیر میں اچھا ہونے کا خطرہ ہے، ایسی حالت میں روزہ نہ رکھے یا توڑدے تو جائز ہے، بعد میں قضاء لازم ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔


مسافر

جو شخص سفر شرعی میں ہو، اور روزہ رکھنے میں مشقت لاحق ہونے کا اندیشہ ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتا ہے اور رکھ لیاہے تو توڑ کرسکتا ہے، دُوسرے وقت میں اس کو روزہ رکھنا لازم ہوگا، اور اگر سفر میں کوئی مشقت نہیں تو روزہ رکھ لینا بہتر ہے، اگرچہ روزہ نہ رکھنے اور بعد میں قضا کرنے کی بھی اس کو اجازت ہے۔


حاملہ

حمل والی عورت کو اگر اپنی جان یا بچہ کا اندیشہ ہو، اور ماہر دین دار ڈاکٹر نے یہ بتایا ہو کہ حمل کی حالت میں روزہ رکھنااس کے لیے یا بچے کے لیےنقصان دہ ہے تو اجازت ہے کہ اس وقت روزہ نہ رکھے، بعد میں ان روزوں کی صرف قضا لازم ہوگی۔


دودھ پلانے والی عورت

دودھ  پلانے  والی عورت کو اگر اپنی یا بچے  کی جان کے نقصان کا خطرہ ہو، یا ناقابل برداشت کمزوری لاحق ہوتی ہو، اور  ماں کے دودھ کے علاوہ  بچے  کی غذا کا کوئی اور بند و بست نہ ہو تو اسے رمضان کا روزہ چھوڑنے کی اجازت ہے، بعد میں اس روزہ کی صرف قضا لازم ہوگی خواہ دودھ پلانے والی بچہ کی ماں ہو یا دائی اگرچہ رمضان میں دودھ پلانے کی نوکری کی ہو


تیمار داری کی وجہ

جب کہ اس کے روزہ رکھنے سے مریض کا نقصان ہو، بعد میں اس پر چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے۔


نہایت کمزور

جو شخص بوڑھاپے کی وجہ سے یا مرض کی وجہ سے انتہائی کمزور ہے، روزے کی سکت نہیں ہے، تو اسے رمضان کا روزہ چھوڑنے یا توڑ نے کی اجازت ہے، بعد رمضان جب بھی قوت حاصل ہوجائے اس پر چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا ضروری ہے۔ 


بھوک پیاس سے مجبور

اگر کسی روزے دار  پر بھوک یاپیاس کا اس قدر غلبہ ہوجائے کہ روزہ نہ توڑنے کی صورت میں جان کے چلے جانے یا کسی مرض کے لاحق ہوجانے کا غالب گمان ہو تو اس صورت میں شریعت نے روزہ توڑنے کی اجازت دی ہے، نیز ایسی صورت میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں ۔ 


مجاہد فی سبیل للہ 

جب کہ اس کے روزہ رکھنے سے جہاد میں نقصان ہوتا ہو تو اس صورت میں شریعت نے روزہ چھوڑنے کی یا رکھ لیاہے تو توڑنے کی اجازت دی ہے، نیز ایسی صورت میں صرف قضا لازم ہے کفارہ نہیں


جنون و بیہوشی

اس میں مبتلا شخص کے لئے اعذار کی بناء پر روزہ نہ رکھنا مباح ہے جب عذر زائل ہو جاۓ تو قضا کریں،


روزہ نہ رکھ سکے تو کیا حکم ہے

اگر یہ لوگ اپنے اُسی عذر میں مرگئے، اتنا موقع نہ ملا کہ قضا رکھتے تو ان پر یہ واجب نہیں کہ فدیہ کی وصیت کر جائیں پھر بھی وصیت کی تو تہائی مال میں جاری ہوگی اور اگر اتناموقع ملا کہ قضا روزے رکھ لیتے، مگر نہ رکھے تو وصیت کرجانا واجب ہے اور وصیت نہ کی، بلکہ ولی نے اپنی طرف سے دے دیا تو بھی جائز ہے مگر ولی پر دینا واجب نہ تھا۔


ہر روزہ کا فدیہ بقدر صدقہ فطر ہے اور تہائی مال میں وصیّت اس وقت جاری ہوگی، جب اس میت کے وارث بھی ہوں اور اگر وارث نہ ہوں اورسارے مال سے فدیہ ادا ہوتا ہو تو سب فدیہ میں صرف کر دینا لازم اور وصیّت کرنا صرف اتنے ہی روزوں کے حق میں واجب ہے جن پر قادر ہوا تھا، مثلاً دس قضا ہوئے تھے اور عذر جانے کے بعد پانچ پر قادر ہوا تھا کہ انتقال ہوگیا تو پانچ ہی کی وصیّت واجب ہے۔ 


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

( في الاعذار التي تبيح الافطار ... منها السفر .... ومنها المرض ...... ومنها حبل الإمرأة وارضاعها ...... ومنها الحيض والنفاس ...... ومنها العطش و الجوع ...... ومنها كبر السن ...... فان برئ المريض أوقدم المسافر وادرك من الوقت بقدر مافاته فيلزمه قضاء جميع ما أدرك فإن لم يصم حتى أدركه الموت فعليه أن يوصى بالفدية كذا في البدائع ۔ عالمگیری - ۲۰۷/۱ )


فتاوی شامی میں ہے۔

وقد ذكر المصنف منها خمسة، وبقي الإكراه وخوف هلاك أو نقصان عقل ولو بعطش أو جوع شديد ولسعة حية (لمسافر) سفراً شرعياً  ولو بمعصية (أو حامل أو مرضع) أما كانت أو ظئراً على ظاهر (خافت بغلبة الظن على نفسها أو ولدها) وقيده البهنسي تبعاً لابن الكمال بما إذا تعينت للإرضاع (أو مريض خاف الزيادة) لمرضه وصحيح خاف المرض، وخادمة خافت الضعف بغلبة الظن بأمارة أو تجربة أو بأخبار طبيب حاذق مسلم مستور ... (الفطر) يوم العذر إلا السفر كما سيجيء، (وقضوا) لزوماً (ما قدروا بلا فدية و) بلا (ولاء)؛ لأنه على التراخي، ولذا جاز التطوع قبله بخلاف قضاء الصلاة۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين فصل في العوارض المبيحة لعدم الصوم ٣/٤٠٢)

وأیضاً

وقضوا لزومًا ما قدروا بلا فدیة وبلا ولاء․․․ فإن ماتوا في ذلک العذر فلا تجب علیہم الوصیّة بالفدیة لعدم إدراکہم عدةً من أیام أخر ولو ماتوا بعد زوال العذر وجبت الوصیة بقدر إدراکہم․․․ وفدی عنہ أي عن المیت ولیہ الذی یتصرف ما في مالہ کالفطرة قدرًا بعد قدرتہ أی علی قضاء الصوم وقوتہ أي فوت القضاء بالموت أم لا (درمختار مع الشامي: ۳/٤۰۵، فصل في العوارض المبیحة لعدم الصوم، ط: زکریا)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: