جمعہ، 15 اپریل، 2022

وضوء یا کلی کا بچاہوا پانی نگل جائے یا نزلہ حلق میں چلاجائے یا آنسو منہ میں چلے جائیں توروزے کا حکم کیاہے؟ سوال نمبر ٢٩١

 سوال

روزے کی حالت میں وضوء یا کلی کرنے کے بعد جو تری باقی رہ جاتی ہے س کو نگلنے سے روزہ کا کیا حکم ہے؟ اسی طرح ناک کا نزلہ اس زور سے کھینچا کہ حلق میں چلاگیا تو روزے کا کیا حکم ہے؟ اور روزے کی حالت میں آنکھوں کے آنسو منہ میں چلے جائیں تو اس سے روزہ ٹوٹ جائے گا یا نہیں؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


وضو یا کلی کرنے کے بعد پانی بالکل پھینک دیا صرف کچھ تری مونھ میں باقی رہ گئی، تو جو منہ میں پانی کی تری باقی رہ جاتی ہے، اس کو تھوک کے ساتھ نگل جانے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا، لیکن بہتر یہ ہے کہ کلی کرنے کے بعد ایک دو مرتبہ تھوک منہ سے نکال دیا جائے، اس لیے کہ کلی کرنے کے بعد کچھ پانی باقی رہ جاتا ہے، لہذا ایک دو مرتبہ تھوک دینے کے بعد پانی باقی نہیں رہتا، بلکہ ہلکی سی تری رہ جاتی ہے، اس میں کوئی حرج نہیں۔


اسی طرح ناک کو اس قدر زور سے سڑک لینا کہ حلق کے اندر چلی جاۓ، یعنی ناک کا نزلہ اوپر زور سے کھینچنے سے حلق میں چلے جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ۔ 


البتہ ناک کی ریزش اور بلغم کا یہ حکم ہے کہ اس کو اگر منہ سے باہر نکالے بغیر نگل لیا تو روزہ فاسد نہ ہوگا، اگر باہر نکال کر پھر نگلا تو روزہ فاسد ہوجائے گا۔


فتاوی شامی میں ہے۔

أو بـقـى بـلـل فـى فيـه بعد المضمضة وابتلعه مع الريق ۔۔۔۔۔۔۔ ( قوله أو بقي بلل في فيه بعد المضمضة ) جعله في الفتح والبدائع شبيه دخول الدخان والغبار ومقتضاه أن العلة على عدم إمكان التحرز عنه ، وينبغي اشتراط البصق بعد مج الماء لاختلاط الماء بالبصاق ، فلا يخرج بمجرد المج نعم لا يشترط المبالغة في البصق ; لأن الباقي بعده مجرد بلل ورطوبة لا يمكن التحرز عنه وعلى ما قلنا ينبغي أن يحمل قوله في البزازية إذا بقي بعد المضمضة ماء فابتلعه بالبزاق لم يفطر لتعذر الاحتراز فتأمل۔ (فتاوی شامى - ٣٦٧/٣)

وأیضاً

أو دخل أنفه مخاط فاستشمه فدخل حلقه) وإن نزل لرأس أنفه كما لو ترطب شفتاه بالبزاق عند الكلام ونحوه فابتلعه أو سال ريقه إلى ذقنه كالخيط ولم ينقطع فاستنشقه. 

(قوله: أو دخل أنفه) الأولى أو نزل إلى أنفه (قوله: وإن نزل لرأس أنفه) ذكره في الشرنبلالية أخذا من إطلاقهم، ومن قولهم بعدم الفطر ببزاق امتد ولم ينقطع من فمه إلى ذقنه ثم ابتلعه بجذبه ومن قول الظهيرية وكذا المخاط والبزاق يخرج من فيه وأنفه فاستشمه واستنشقه لايفسد صومه. اهـ.

ثم قال: لكن يخالفه ما في القنية نزل المخاط إلى رأس أنفه لكن لم يظهر ثم جذبه فوصل إلى جوفه لم يفسد اهـ حيث قيد بعدم الظهور۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ۳۷۳/۳)

وأیضاً

إذا دخل الدمع في فم الصائم إن كان قليلا نحو القطرة أو القطرتين لا يفسد صومه لان التحرز عنه غير ممكن، وإن كان كثيرا حتى وجد ملوحته في جميع فمه وابتلعه فسد صومه، وكذا الجواب في عرق الوجه اه‍. ملخصا. وبالتعليل بعدم إمكان التحرز يظهر الفرق بين الدمع والمطر كما أشار إليه الشارح فتدبر، ثم في التعبير بالقطرة إشارة إلى أن المراد الدمع النازل من ظاهر العين، أما الواصل إلى الحلق من المسام فالظاهر أنه مثل الريق فلا يفطر وإن وجد طعمه في جميع فمه. (فتاوی شامی ٣/٣٧٨)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولو دخل المخاط أنفہ من رأسہ ثم استشمہ فادخل حلقہ عمداً لم یفطرہ لانہ بمنزلۃ ریقہ … الدموع اذا دخلت فم الصائم ان کان قلیلاً کالقطرۃ والقطر تین او نحوھا لایفسد صومہ وان کان کثیراً حتی وجد ملوحتہ فی جمیع فمہ واجتمع شیٔ کثیر فابتلعہ یفسد صومہ۔ (فتاوی عالمگیری ۲۰۳/۱)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: