سوال
زکوٰۃ کی رقم ہو اور اس رقم کو ایسے شخص کو ادھار کے طور پر دے جو صاحب مال ہو تو اور وہ دو تین دن میں لوٹا دے تو اسکو رقم دینا درست ہے۔
سائل: زبیر بن نور محمد کچھی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
زکاۃ کی رقم سے مراد اگر وہ رقم ہے جو اپنی زکاۃ میں دینے کے لیے علیحدہ کرکے رکھی ہو، تو اس میں سے کسی کو قرض دینے سے زکاۃ کی ادائیگی سے سبک دوش نہ ہو گا، لہذا قرض دی ہوئی رقم واپس آتے ہی اس رقم کو مستحق کے حوالہ کر دے، یا اس کے متبادل رقم زکاۃ میں ادا کردے۔
اور اگر زکاۃ کی رقم سے مراد یہ ہے کہ کسی دوسرے نے اسے زکاۃ کی ادائیگی کا وکیل بناکر زکاۃ کی رقم دی ہے تو وکیل کے لیے جائز نہیں کہ وہ اس رقم میں سے کسی کو قرضہ دے، بلکہ مستحق ہی کو دینا ضروری ہے اور اگر قرض دے دیا تو اس قدر رقم کا ضامن ہو گا۔
اس سلسلہ میں فتاوی رحیمیہ میں حضرت مفتی عبدالرحیم صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: زکوٰۃ کی رقم زکوٰۃ کے مصرف میں خرچ کی جائے۔ کسی غریب کو قرض کے طور پر دینے کی اجازت نہیں ہے۔ اگر صاحب زکو ٰۃ کی طرف سے اجازت ہو تو بھی جائز نہیں ہے ۔ اور جب تک اس کے مصرف میں تملیکاً نہ دی جائے۔ یعنی جب تک اس ضرورت مند غریب کو جس کو زکوٰۃ کی رقم دی جائے گی ۔ اس رقم کا مالک نہ بنادیا جائے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی ۔ لہذا زکوٰۃ کے حق دا رکو بطور قرض کے نہیں ویسے ہی دے دی جائے۔ (فتاوی رحیمیہ ٧/١٤٣)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں