اتوار، 3 اپریل، 2022

جگھڑے سے بچنے کے لئے تجدید نکاح کا حکم سوال نمبر ٢٧٠

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مسئلہ یہ ہے کہ ایک جگہ نکاح ہوا اور نکاح عوام کے سامنے ہوا اس کے اندر  کوئی غلطیاں نہیں ہوئی پھر ایک مہینے کے بعد لڑکی کی ماں بچی کو لےکر چلی گئی اور پھر کہہ رہی ہے کہ آپ تبلیغی ہے سنی نہیں ہے لڑکی والے سنی ہے لڑکے والوں سے کہ رہے ہیں کہ پھر سے نکاح پڑھانا پڑے گا تو کیا یہ جائز اور درست ہے

سائل: عبدالحی سالک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


نکاح منعقد ہونے کے لئے مجلس نکاح میں دو عاقل بالغ گواہوں کا موجود ہونا اور گواہوں کا دونوں کے ایجاب اور قبول کے الفاظ کو سننا ضروری ہے، جب انہوں مجلس میں نکاح کرلیا تو اب نکاح دہرانے کی ضرورت نہیں ہے لیکن پھر بھی وہ اس بات پر اصرار کریں تو دوبارہ نزاع سے بچنے کے لئے نکاح کی تجدید کرنا جائز ہے اس لئے کہ فقہاء نے احتیاطاً تجدید نکاح کی صورت بھی بیان کی ہے۔


احتیاطاً تجدید نکاح

فقہاء نے ایک صورت احتیاطاً  تجدید نکاح کی لکھی ہے کہ  ناواقف لوگوں کو چاہئے کہ وہ مہینہ میں ایک یا دو مرتبہ نکاح کی تجدید کرلیا کریں، اس لیے کہ غلطی میں ان سے کہیں کوئی کفریہ کلمہ سرزد نہ ہوگیا ہو اور اگر مردوں سے نہیں تو عورتیں اس طرح غلطیاں بہت کرتی ہیں، تاہم  تجدید نکاح کا یہ حکم احتیاطاً ہے، لازمی نہیں، اور تجدید نکاح سے نکاح میں کوئی نقص بھی نہیں آتا، نیز اس کی کوئی خاص فضیلت نہیں، یہ حکم احتیاط پر مبنی ہے۔


اور صرف نزاع سے بچنے کے لئے  نکاح کی تجدید کی گئی ہو تو نیا مہر متعین کرنا ضروری نہیں ہے، اور  اس نفسِ نکاح سے مہر بھی لازم نہیں  ہوگا۔


کتاب الاصل میں ہے۔

قال امام محمد في الأصل: بلغنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم أنه قال: لا نكاح إلا بشهود. وإذا تزوج الرجل بشهادة شاهدين فهو جائز ولو كانا أعميين أو محدودين في قذف بعد أن لا تجحد المرأة والزوج فهو جائز۔ (کتاب الاصل ١٠/٢٠٩ طبعة قطر)


فتاوی شامی میں ہے۔

وعلم الألفاظ المحرمة أو المكفرة، ولعمري هذا من أهم المهمات في هذا الزمان، لأنك تسمع كثيرا من العوام يتكلمون بما يكفر وهو عنها غافلون، والاحتياط أن يجدد الجاهل إيمانه كل يوم ويجدد نكاح امرأته عند شاهدين في كل شهر مرةً أو مرتين؛ إذ الخطأ وإن لم يصدر من الرجل فهو من النساء كثير۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/١٢٦)


فتاوی شامی میں ہے۔

تنبيه: في القنية: جدد للحلال نكاحا بمهر يلزم إن جدده لأجل الزيادة لا احتياطا ا ه‍: أي لو جدده لأجل الاحتياط لا تلزمه الزيادة بلا نزاع كما في البزازية۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين  ٤/٢٤٨) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: