سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
الحمد الله میں ٹھیک ہوں اور امید کرتا ہوں کہ آپ بھی بخیر ہونگے لکھنا ضروری بات یہ ہیکہ شافعی مسلک میں وتر کی نماز دو سلام میں ادا کی جاتی ہے اور حنفی مسلک میں ایک سلام میں ادا کی جاتی ہے اور میں حنفی مسلک سے تعلق رکھتا ہوں مجھے کیا شافعی مسلک میں دو رکعت اور ایک رکعت الگ الگ ادا کرتے ہیں کیا ہم بھی اس کے ساتھ وتر کی نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں؟ صحیح جواب عنایت فرمائیں، مہربانی ہوگی۔
العارض: شمس تبریز تامل ناڈو
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احکام کے استنباط کے لیے فقہاءِ کرام میں سے ہر ایک کے اپنے اصول ہیں، جب کسی مسئلے کے متعلق دلائل مختلف ہوں تو ہر فقیہ اپنے اصول کی بنا پر کسی دلیل کو ترجیح دیتا ہے، وتر پڑھنے کی کیفیت کے متعلق وارد احادیث مبارکہ چوں کہ مختلف ہیں اور ائمہ فقہاء نے اپنے اپنے اصولوں کے مطابق دلائل کو ترجیح دے کر کسی ایک طریقے کو اختیار کیا ہے، لہٰذا ہمارے فقہائے حنفیہ کے نزدیک تین رکعتیں ایک سلام کے ساتھ پڑھنا لازم ہے، لہذا حنفی مسلک میں وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا ضروری ہے، اس لیے حنفی کے لیے دو سلام کے ساتھ وتر پڑھنا درست نہیں ہے، اس لئے کہ مفتی بہ قول حنفیہ کا یہی ہے کہ وتر کی نماز ایک سلام سے ادا کی جائے اور اگر شافعی امام دو سلام سے وتر پڑھے تو حنفی اس کی اقتداء نہ کرے۔ اپنی وتر علیحدہ پڑھے، الا یہ کہ مجبوری ہو اور الگ سے پڑھنے کی کو صورت نہ ہو یا فتنے کا اندیشہ ہو تو اس وقت اقتداء کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے مسجد حرام اور مسجد نبوی میں ہے۔
فتاوی قاسمیہ میں حضرت مفتی شبیر احمد صاحب مرادآبادی ایسے ہی ایک طویل سوال کے جواب میں لکھا ہے اس کا ایک ٹکڑا پیش خدمت ہے، باتفاق حنفیہ وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ لازم ہے، اوردورکعت پر قعدہ کرنا واجب ہے، اور اگر دورکعت پر بالقصد سلام پھیر دیں گے تو جمہور احناف کے نزدیک وتر کی نماز صحیح نہیں ہوتی ہے، لہذا حنفیہ کے نزدیک وتر کی نماز تین رکعت ایک سلام کے ساتھ پڑھنا لازم اورواجب ہے اور حضرت امام شافعی کے نزدیک وتر کی نماز واجب بھی نہیں ہے ، اور ایک سلام کے ساتھ پڑھنا لازم بھی نہیں ہے ، بلکہ سنت ہونے کے ساتھ ساتھ دو سلاموں کے ساتھ پڑھنا جائز ہے۔ وصح اقتداء من یریٰ الوتر واجباً بمن یراہ سنۃ بشرط أن یصلیہ بسلام واحد؛ لأن الصحیح اعتبار رأي المقتدی۔ (شامی زکریا۲/۳۳۹، کراچی ۱/۵۹۰، ۵۹۱)
وصحح الشارح الزیلعی أنہ لایجوز اقتداء الحنفی بمن یسلم من الرکعتین في الوتر۔( البحر الرائق ، کتاب الصلاۃ ، باب الوتر والنوافل زکریا۲/۶۸،کوئٹہ ۲/۳۹)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب رہی حرمین شریفین کی بات وہاں پر حنفی لوگوں کے لئے الگ سے وتر کی نماز باجماعت پڑھنے کی کوئی شکل نہیں ہے، نہ حکومت کی طرف سے اس کی اجازت ہے اور نہ ہی حنفی لوگوں کو مسجد حرام اور مسجد نبوی میں وتر کی جماعت الگ سے پڑھنے کی ہمت ہے ، اس لئے ضرورت کی بنا پر امام جصاص اور ابن وہبان کے قول کے مطابق وہاں پر حنفی لوگوں کے لئے حنبلی امام کے پیچھے وتر کی نماز کی گنجائش دی گئی ہے ، لیکن یہ ضرورت ہندوستان میں نہیں ہے، اس لئے ہندوستان میں حنفی مقتدی شافعی امام کے پیچھے وتر کی نما ز نہیں پڑھیں گے۔ (فتاوی قاسمیہ ٦/٧٣٦)
اسی طرح فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے سوال کے جواب میں لکھا ہے کہ حنفیہ کے نزدیک اصل مسئلہ یہ ہے کہ وتر کی تینوں رکعتیں ایک سلام سے پڑھی جائیں، اس لئے اگر بسہولت ممکن ہو، تو حنفی شخص کو اپنے وتر ایک سلام کے ساتھ ہی پڑھنی چاہئے؛ تاہم جہاں صف سے نکلنے میں فتنہ کا اندیشہ ہو اور امام کے ساتھ وتر پڑھنے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ ہو، جیساکہ مسجدِ نبوی اور مسجد حرام میں یہ صورت بکثرت پیش آتی ہے، تو ایسی حالت میں حنفی شخص کے لیے دو سلام سے وتر پڑھانے والے امام کے پیچھے وتر پڑھنے کی گنجائش ہے۔ لا یجوز اقتداء الحنفي بمن یسلم من الرکعتین في الوتر، وجوّزہ أبوبکر الرازي ویصلي معہ بقیة الوتر؛ لأن إمامہ لم یخرج بسلامہ عندہ وہو مجتہد فیہ۔ (البحر الرائق ۲/۳۹ کوئٹہ) وبالجملة فمذہب الحنفیة أنہ لا وتر عندہم إلا بثلاث رکعات بتشہدین وتسلیم، نعم لو اقتدیٰ حنفي بشافعي في الوتر وسلم ذٰلک الشافعي الإمام علی الشفع الأول علیٰ وفق مذہبہ ثم أتم الوتر صح وتر الحنفي عند أبي بکر الرازي وابن وہبان۔ (معارف السنن ۴/۱۷۰ أشرفي)ولا عبرة بحال المقتدي وإلیہ ذہب الجصاص وہو الذي اختارہ لتوارث السلف واقتداء أحدہم بالاٰخر بلا نکیر مع کونہم مختلفین في الفروع وکان شیخنا شیخ الہند محمود الحسن أیضاً یذہب إلی مذہب الجصاص۔ (فیض الباري للعلامة الکشمیري ۳/۳۵۴) واللہ تعالیٰ اعلم (دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٦٨٢٩)
البحر الرائق میں ہے۔
وصحح الشارح الزيلعي أنه لا يجوز اقتداء الحنفي بمن يسلم من الركعتين في الوتر وجوزه أبو بكر الرازي ويصلي معه بقية الوتر لأن إمامه لم يخرج بسلامه عنده وهو مجتهد فيه كما لو اقتدى بإمام قد رعف واشتراط المشايخ لصحة اقتداء الحنفي في الوتر بالشافعي أن لا يفصله على الصحيح مفيد لصحته إذا لم يفصله اتفاقا ويخالفه ما ذكر في الإرشاد من أنه لا يجوز الاقتداء في الوتر بالشافعي بإجماع أصحابنا لأنه اقتداء المفترض بالمتنفل فإنه يفيد عدم الصحة فصل أو وصل فلذا قال بعده والأول أصح مشيرا إلى أن عدم الصحة إنما هو عند الفصل لا مطلقا معللا بأن اعتقاد الوجوب ليس بواجب على الحنفي اه.
فمراده من الأول هو قوله في شروط الاقتداء بالشافعي ولا يقطع وتره بالسلام هو الصحيح ويشهد للشارح ما في السراج الوهاج أن الاقتداء به في العيدين صحيح ولم يرد فيه خلاف مع أنه سنة عند الشافعي وواجب عندنا وما نقله أصحاب الفتاوى عن ابن الفضل أن اقتداء الحنفي في الوتر بمن يرى أنه سنة كاليوسفي صحيح لأن كلا يحتاج إلى نية الوتر فلم تختلف نيتهما فأهدر اختلاف الاعتقاد في صفة الصلاة واعتبر مجرد اتحاد النية۔ (البحر الرائق ٢/٤٢ ط: دار الکتاب الاسلامی) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں