جمعہ، 29 اپریل، 2022

درمیان میں بی سی (کمیٹی) چھوڑنے کی صورت میں جمع شدہ رقم واپس نہ کرنا کیسا ہے؟ سوال ٣٠٢

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

بی سی (کمیٹی) میں تمام شرکاء برابر رقم جمع کرائیں، اور انہیں برابر رقم دی جائے اورتمام شرکاءاخیرتک شریک رہیں (ایسانہ ہوکہ جس کی کمیٹی نکلتی جائےوہ بقیہ اقساط سے بری الذمہ ہوتاجائے) اور بولی لگا کر فروخت نہ کی جائے تو اس طرح کی بی سی (کمیٹی) ڈالنا جائزہے۔ (بنوری )

ہمارے یہاں اس طرح کی بی سی لگتی ہے لیکن اس کے اندر جو بی سی کا ذمہ دار ہوتا ہے وہ یہ شرط لگاتا ہے کہ اگر کوئی شخص ایک مرتبہ مثال کے طور پر ایک ہزار روپیہ ادا کرے اور پھر وہ بی سی کا معاملہ نہ کرنا چاہیے اور آگے کی رقم نہ بھرے تو جو بی سی کا ذمہ دار ہوتا ہے اس شخص کو ایک ہزار روپیہ واپس نہیں دیتا بلکہ یہ کہتا ہے کہ اگر اب وہ معاملہ فسخ کر دے گا تو اس کو ایک ہزار روپیہ واپس نہیں ملے گا تو کیا ایسا کرنا جائز ہوگا یا نہیں ؟

سائل: طاہر ناسک


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


ناحق کسی کا مال کھانا ناجائز اور حرام ہے، ناحق مال کھانے والے پر  قرآن وحدیث میں بہت سخت وعیدات وارد ہوئی ہیں،  ایسے لوگ اپنے پیٹ میں آگ بھر رہے ہیں بلکہ بعض کتبِ فقہ میں منقول ہے کہ  ناحق مال کھانے والے سے ایک دانق (جو درہم کا چھٹا حصہ ہوتا ہے) کے  بدلے میں اس کی سات سو مقبول  نمازیں،حق دار کو دے دی جائیں گی، ظلم کوئی معمولی چیز نہیں ہے، ساری عبادتیں اس وقت ناکافی ہیں جب تک ظلم سے برات نہ ہو۔


مسؤلہ صورت میں یہ اس طرح کی شرط لگاکر بی سی کا معاملہ درست نہیں ہے جس کو کمیٹی بھی کہا جاتا ہے، ایک تو اس وجہ سے کہ یہ ناحق کسی کا مال کھانا ہے اور اس کی وعید اوپر آچکی اور دسرا یہ کہ یہ ایک طرح کا مالی جرمانہ ہے، اور مالی تعزیر کی ایک صورت ہے اور مالی تعزیر جمہور فقہاء کے ہاں جائز نہیں ہے، لہذا اگر درمیان میں کوئی اپنی بی سی ختم کریں تو ان کی جمع شدہ ساری قسطیں واپس کرنا ضروری ہے، اور اگر آگے سے یہ شرط لگادی جائے تو معاملہ ہی درست نہیں ہوگا اس لئے کہ اس کے صحیح ہونے کی شرائط میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ہر شریک کو ہر وقت بطورِ قرض دی ہوئی اپنی رقم واپس لینے کے مطالبہ کا پورا حق ہو، اس پر جبر نہ ہو، اور یہ شرط جبر پر دلالت کرتی ہے۔


فتاوی شامی میں ہے۔

"الصلاة لإرضاء الخصوم لاتفيد، بل يصلي لله، فإن لم يعف خصمه أخذ من حسناته جاء: «أنه يؤخذ لدانق ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة».

(قوله: جاء) أي في بعض الكتب، أشباه عن البزازية، ولعل المراد بها الكتب السماوية أو يكون ذلك حديثاً نقله العلماء في كتبهم: والدانق بفتح النون وكسرها: سدس الدرهم، وهو قيراطان، والقيراط خمس شعيرات، ويجمع على دوانق ودوانيق؛ كذا في الأخستري حموي (قوله: ثواب سبعمائة صلاة بالجماعة) أي من الفرائض لأن الجماعة فيها: والذي في المواهب عن القشيري سبعمائة صلاة مقبولة ولم يقيد بالجماعة. قال شارح المواهب: ما حاصله هذا لاينافي أن الله تعالى يعفو عن الظالم ويدخله الجنة برحمته ط ملخصاً۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/١٢٣)


فتاوی شامی میں ہے۔

"مطلب في التعزير بأخذ المال (قوله لا بأخذ مال في المذهب) قال في الفتح: وعن أبي يوسف يجوز التعزير للسلطان بأخذ المال. وعندهما وباقي الأئمة لا يجوز. اهـ. ومثله في المعراج، وظاهره أن ذلك رواية ضعيفة عن أبي يوسف. قال في الشرنبلالية: ولا يفتى بهذا لما فيه من تسليط الظلمة على أخذ مال الناس فيأكلونه اهـ ومثله في شرح الوهبانية عن ابن وهبان (قوله وفيه إلخ) أي في البحر، حيث قال: وأفاد في البزازية أن معنى التعزير بأخذ المال على القول به إمساك شيء من ماله عنه مدة لينزجر ثم يعيده الحاكم إليه، لا أن يأخذه الحاكم لنفسه أو لبيت المال كما يتوهمه الظلمة إذ لا يجوز لأحد من المسلمين أخذ مال أحد بغير سبب شرعي.

وفي المجتبى لم يذكر كيفية الأخذ وأرى أن يأخذها فيمسكها، فإن أيس من توبته يصرفها إلى ما يرى. وفي شرح الآثار: التعزير بالمال كان في ابتداء الإسلام ثم نسخ. اهـ." (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٦/١٠٦ )۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: