سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
حضرات مفتیان کرام توجہ مبذول فرمائیں آج کل رمضان المبارک کی نماز فجر میں عام طور پر مسنون قراءة اور مسنون مقدار کا لحاظ نہیں کیا جاتا ،عام دنوں میں جو قراءت کی جاتی ہے اس سے بھی زیادہ مختصر قراءت کی جاتی ہے حالانکہ رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص مناسبت ہے کیا یہ روش درست ہے؟؟؟ قرآن و حدیث اور سیرت سلف کی روشنی میں مدلل جواب عنایت فرما کر ممنون فرمائیں
سائل: ثوبان پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
فقہاءِ کرام نے احادیث کی روشنی میں فرض نمازوں میں مسنون قرأت کی تقسیم یوں کی ہے:
فجراورظہرمیں طوالِ مفصل یعنی سورۂ حجرات سے سورۂ بروج تک کی سورتیں یااتنی مقدارکی قرأت ہو۔ عصراورعشاء میں اوساطِ مفصل یعنی سورۂ بروج سے سورۂ بینہ تک کی سورتیں پڑھی جائیں اورمغرب میں قصارِ مفصل یعنی سورۂ زلزال سےاخیرتک کی سورتوں میں سے تلاوت کی جائے۔ لیکن مسنون قرأت کے اہتمام کے ساتھ اس بات کا ضرور خیال رکھاجائے کہ نماز ہلکی پھلکی ہو اور مقتدیوں پربھاری نہ ہو۔ اور قرأت کرنے کااندازبھی ایسا ہوکہ مسنون قرأت کے ساتھ ساتھ بہت زیادہ وقت خرچ نہ ہو۔
چونکہ شریعتِ مطہرہ میں باجماعت نماز میں امام کے لیے کچھ ہدایات دی گئی ہیں، من جملہ ان ہدایات کے ایک ہدایت نمازمیں قرأت کے سلسلہ میں بھی ہے، رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ائمہ کرام کو مقتدیوں کی پریشانی کی رعایت کرتے ہوئے طوالت سے اجتناب اور نماز میں تخفیف کا حکم دیا ہے۔
نماز میں قرأت کی طوالت کہ جس کی بناء پر مقتدیوں کی رعایت نہ رکھنا امامت کے آداب کے خلاف ہے، احادیث میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سب سے زیادہ کامل اور ہلکی نماز پڑھایا کرتے تھے، نیز بسا اوقات مقتدیوں کی رعایت کی بنا پرانتہائی مختصر سورتیں پڑھنا بھی آپ سے ثابت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ائمہ کو بھی یہ ہدایت ہے کہ نمازطویل نہ پڑھائیں، اسی بنا پرفقہاءِ کرام نے بھی اپنی کتابوں میں لکھا ہے کہ امام کو نمازمیں تخفیف سے کام لینا چاہیے، اورمقتدیوں کی رعایت رکھنالازم ہے؛
صحیح البخاري کی روایت ہے کہ حضرت ابوہریرہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب کوئی شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو اسے تخفیف کرنا چاہیے کیوں کہ مقتدیوں میں کمزور اور بیمار اور بوڑھے سب ہی ہوتے ہیں اور جب تم میں سے کوئی اپنے نماز پڑھے تو جس قدر چاہے طول دے۔
اسی طرح سنن النسائي شریف میں حضرت انس سے روایت ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تمام لوگوں سے ہلکی اور کامل نماز پڑھا کرتے۔
مسؤلہ صورت میں رمضان المبارک میں چونکہ سحری کے لئے دوتین گھنٹے پہلے لوگ پیداوار ہوتے ہیں اور بعض حضرات کا معمول ایسا بھی دیکھا ہے کہ وہ رات بھر عبادت اور تلاوت میں گزاردیتے ہیں اگر ان کی رعایت میں کچھ تخفیف کردی جاتی ہے تو یہ خلاف سنت نہیں ہے اس لئے کہ نماز میں مقدیوں کی رعایت کرنا بھی اللہ کے رسول سے مروی احادیث مبارکہ سے ثابت ہے یہاں تک کہ بچوں کے رونے کی آواز سن کر ان کی والدہ کی رعایت میں بھی آپ نے نماز میں اختصار فرمایا ہے، حدیث میں ہے کہ حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ میں نے کسی امام کے پیچھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ ہلکی اور کامل نماز نہیں پڑھی اور بے شک آپ بچے کا گریہ سن کر اس خوف سے کہ اس کی ماں پریشان ہوجائے گی نماز کو ہلکا کردیتے تھے۔
اور جہاں تک رمضان المبارک کو قرآن کریم سے خاص مناسبت کا مسئلہ ہے تو یہ صرف فجر کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ پورا مہینہ اس کے لئے ہیں، البتہ اگر نمازی فجر میں لمبی قرأت سے بوجھ محسوس نہ کرتے ہو تو امام کو مختصر قرأت نہیں کرنی چاہئے وہ سنت کے خلاف ہوگی۔
صحیح البخاري میں ہے۔
"عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ الأَنْصَارِيِّ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللهِ لاَ أَكَادُ أُدْرِكُ الصَّلاَةَ مِمَّا يُطَوِّلُ بِنَا فُلاَنٌ، فَمَا رَأَيْتُ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم فِي مَوْعِظَةٍ أَشَدَّ غَضَبًا مِنْ يَوْمِئِذٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ إِنَّكُمْ مُنَفِّرُونَ! فَمَنْ صَلَّى بِالنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ فِيهِمُ الْمَرِيضَ وَالضَّعِيفَ وَذَا الْحَاجَةِ". (صحیح البخاري،کتاب العلم، باب الْغَضَبِ فِي الْمَوْعِظَةِ وَالتَّعْلِيمِ إِذَا رَأَى مَا يَكْرَهُ، ١/١٩ ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
صحیح البخاري میں ہے۔
"عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّ رَسُولَ اللهِ صلى الله عليه وسلم قَالَ: إِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِلنَّاسِ فَلْيُخَفِّفْ؛ فَإِنَّ مِنْهُمُ الضَّعِيفَ وَالسَّقِيمَ وَالْكَبِيرَ، وَإِذَا صَلَّى أَحَدُكُمْ لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ". (صحیح البخاري،کتاب الصلاة، باب إِذَا صَلَّى لِنَفْسِهِ فَلْيُطَوِّلْ مَا شَاءَ، ١/٩٧ ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
صحیح البخاري میں ہے۔
عن أبيه أبي قتادة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: إني لأقوم في الصلاة أريد أن أطول فيها فأسمع بكاء الصبي فأتجوز في صلاتي؛ كراهية أن أشق على أمه". (صحیح البخاري، کتاب الصلاة، باب من أخفّ الصلاة عندبکاء الصبي، ١/٩٨ ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
سنن النسائي میں ہے۔
"عن أنس : أن النبي صلى الله عليه و سلم كان أخفّ الناس صلاة في تمام". (سنن النسائي، ماعلی الإمام من التخفیف،کتاب الصلاة، ١/١٣٢ ط:قدیمي کتب خانه کراچي)
فتاوی شامی میں ہے
كَمَا ذُكِرَ «أَنَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ فِي الْفَجْرِ، فَلَمَّا فَرَغَ قَالُوا لَهُ: أَوْجَزْت، قَالَ: سَمِعْت بُكَاءَ صَبِيٍّ فَخَشِيت أَنْ تُفْتَنَ أُمُّهُ» اهـ مُلَخَّصًا. فَقَدْ ظَهَرَ مِنْ كَلَامِهِ أَنَّهُ لَايَنْقُصُ عَنْ الْمَسْنُونِ إلَّا لِضَرُورَةٍ كَقِرَاءَتِهِ بِالْمُعَوِّذَتَيْنِ لِبُكَاءِ الصَّبِيِّ، (فتاوی شامی ٢/٣٠۵)
البحرالرائق میں ہے۔
"(قوله: وتطويل الصلاة) أي وكره للإمام تطويلها؛ للحديث: "إذا أمّ أحدكم الناس فليخفف". (البحرالرائق ، ٣/٤٠٦ بیروت)
مستفاد: دارالافتاء جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن
(فتوی نمبر : ١٤٤١٠۵٢٠٠٦٤١)
(فتوی نمبر : ١٤٤٠١٠٢٠١٠٩٢)
واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں