سوال
ایک شخص سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد بیدار ہوا اس نے بغیر کھائے روزہ کی نیت کرلی اسی وقت لیکن نماز فجر سے تین بجے تک وہ اس سوچ میں رہا کہ آج کا روزہ رہنےدو پھر سوچتا کہ روزہ رکھلو جب کہ اسنے ابتداء میں نیت کی ہے روزہ رکھنےکی لیکن نماز فجر کے بعدسے یہ سوچ بچار میں ہے پھر جب عصر کا وقت قریب ہوا تو پھر اس نے روزہ کی نیت کر لی اس مسئلہ میں رہنمائی فرماکر مزید مہربانی فرمائیں۔
سائل: محمد طارق مالیگاؤں
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
نیت دِل کے ارادے کا نام ہے اور رمضان کے مہینے میں روزے کی نیت کرنا ضروری ہے، دل میں ارادہ کر لینا بھی کافی ہے، بہرحال اس نیت کے استحضار کے لیے اگر زبان سے بھی نیت کر لیں تو بہتر ہے، اور رمضان کے روزے کی نیت نصفِ نہار شرعی سے پہلے پہلے کر سکتے صبح صادق سے لیکر غروب تک جتنا وقت ہوتا ہے اس کے آدھے کو نصف النہار شرعی کہتے ہیں۔ یعنی صبح صادق اور غروب آفتاب کے درمیان جتنے گھنٹے اور منٹ ہوتے ہوں، ان کو دو حصوں میں تقسیم کردیا جائے، پہلے نصف پر جو وقت ہوتا ہے وہی نصف النہار ہوتا ہے اور روزے میں اسی کا اعتبار ہوگا اور نصف النہار شرعی سے پہلے پہلے تک نیت کرنا ضروری ہوگا۔
ایک بار نیت کرکے روزہ رکھ لیا تو اب نیت بدلنے کا اختیار نہیں رہا، کیونکہ صبح کی نیت کی وجہ سے روزہ شروع ہوچکا ہے۔ اب نیت بدلنے کے معنی روزہ توڑنے کے ہوں گے، اس صورت میں اگر صبحِ صادق کے بعد کچھ کھایا پیا تو روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضاء و کفارہ دونوں لازم ہوں گے اور اگر اس نے کچھ کھایا پیا نہیں ہے اور بعد میں صرف نیت میں تذبذب ہے تو اس کا روزہ چونکہ پہلے شروع ہوچکا ہے اس لئے اب اس کا روزہ مکمل شمار ہوگا۔
مسؤلہ صورت میں جب صبح میں روزہ کی نیت کرلی تو ان کا روزہ شروع ہوگیا اب نیت میں تذبذب پیدا ہونے سے روزہ میں کوئی فرق نہیں پڑے گا اور اگر اس نے کچھ کھا پی لیا ہے تو قضاء اور کفارہ دونوں لازم ہوں گے لیکن اگر کچھ کھایا پیا نہیں ہے تو ان کا روزہ مکمل ہوگیا۔
البحر الرائق میں ہے۔
إعلم أن النیۃ من اللیل کافیۃ في کل صوم بشرط عدم الرجوع عنہا حتی لو نوی لیلا أن یصوم غدا ثم عزم في اللیل علی الفطر لم یصبح صائمًا فلو أفطر لا شیئ علیہ إن لم یکن رمضان ولو مضی علیہ لا یجزیہ لأن تلک النیۃ انتقضت بالرجوع ولو نوی الصائم الفطر لم یفطر حتی یأکل۔ (البحر الرائق، کتاب الصوم، مکتبہ زکریا دیوبند ۲/٤۵۸، کوئٹہ۲/۲٦۲)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
ولو نوی من اللیل ثم رجع عن نیتہ قبل طلوع الفجر صح رجوعہ في الصیامات کلہا کذا في السراج الوہاج (إلی قولہ) إذا نویٰ الصائم الفطر ولم یحدث شیئًا غیر النیۃ فصومہ تام۔ (ہندیۃ، کتاب الصوم، الباب الأول في تعریفہ وتقسیمہ وسببہ ووقتہ وشرطہ، مکتبہ زکریا دیوبند قدیم۱/۱۹۵، جدید ۱/۲۵۸)
فتاوی شامی میں ہے۔
(فيصح اداء صوم رمضان، والنذر المعين، و النفل ، بنية من الليل ........ فلا تصح قبل الغروب ولا عنده ( إلى ضحوة الكبرى لا ) بعدها ولا عندها إعتبارا لأكثراليوم ۔۔۔۔۔۔۔ (قوله: إلى الضحوة الكبرى) المراد بها نصف النهار الشرعي والنهار الشرعي من استطارة الضوء في أفق المشرق إلى غروب الشمس۔ (شامی ۳۳۸/۳)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں