سوال
روزے کی حالت میں احتلام یعنی غسل کی حاجت ہو جانئے تو کیا حکم ہے؟ اور احتلام میں روزہ فاسد ہونے اور نہ ہونے کی مکمل تفصیل کیا ہے؟ اسی طرح بیوی سے غیر سبیلین میں جماع کا حکم شرعی کیا ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
منی کے نکلنے کی دو صورتیں ہیں ایک خروج یعنی خود بخود منی کا نکل جانا اور دوسرا اخراج یعنی اپنے کسی فعل سے منی کو نکالنا۔
اگر خروج ہے تو روزہ نہیں ٹوٹے گا جیسے روزہ دار دن میں سویا اور احتلام ہوگیا، یا بیداری کی حالت میں بیوی کے تصور سے یا کسی اور ناجائز خیال اور تصور سے شہوت کے ساتھ منی نکل جائے تو اس سے روزہ فاسد نہیں ہوگا، بلکہ روزہ صحیح ہے، چاہے پورا دن وہ جنبی رہے، البتہ جتنی جلدی ہو سکے غسل کرلے، بلاوجہ غسل میں تاخیر نہ کرے، تاکہ روزے کا وقت زیادہ سے زیادہ پاکی میں گزرے۔
اسی طرح روزے کی حالت میں کسی عورت کو صرف دیکھنے کی وجہ سے منی نکل جائے تو اس سے بھی روزہ نہیں ٹوٹتا اس لئے کہ یہ خروج ہے، البتہ قصداً حالت روزہ میں غیر محرم پر نگاہ کرنے سے روزے کے انوارات اور حقیقی ثمرات ختم ہوجاتے ہیں۔ لہذا جہاں خروج کی صورتحال ہوگی وہاں روزہ فاسد نہیں ہوگا۔
اور اگر اخراج کی صورت ہو تو روزہ فاسد ہوجائے گا، جیسے روزے کی حالت میں ہاتھ سے رگڑ کر منی نکالنا جسے مشت زنی کہتے ہیں اس سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے البتہ اس سے صرف قضاء لازم ہوگی، یعنی اس روزے کے بدلے ایک روزہ رکھنا ہے، کفارہ لازم نہیں ہوگا، لیکن ایسا کرنا گناہ ہے، اس سے توبہ اورآئندہ اجتناب لازم ہے۔
اسی طرح شلوار کے اوپر سے ہاتھ سے دباکر یا ران یا بستر سے رگڑکر منی نکالنے کا وہی حکم ہے جو مشت زنی کا ہے یعنی روزہ ٹوٹ جائے گا اور قضا واجب ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
اسی طرح اپنی بیوی سے روزے کی حالت میں بوس و کنار کرتے وقت اور شہوت سے معانقہ کرتے وقت منی نکل جائے تو بھی روزہ فاسد ہوجائے گا، اور اگر شوہر نے روزے کی حالت میں روزہ یاد ہونے کے باوجود غیر سبیلین میں جماع کیا مثلاً ران یا پیٹ پر شرمگاہ کو رگڑا تو اگر اس سے انزال ہوگیا یعنی منی خارج ہو گئی تو روزہ ٹوٹ جائے گا اوراس کی قضاء ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
خلاصۂ کلام یہ ہوا کہ جہاں خروج پایا جائے گا وہاں روزہ فاسد نہیں ہوگا اور جہاں اخراج پایا جائے گا وہاں روزہ فاسد ہوگا قضاء لازم ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔
فتاوی شامی میں ہے
لو جامع فیما دون الفرج ولم ینزل أما لو أنزل قضی فقط یعنی في غیر السبیلین․ (فتاوی شامی ۱/۱۰۹)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
الغيبة لا تفصد صومه وكذا الاحتلام وكذا إذا نظر إلى امرأة فأنزل أو تفكر فأمنى لا يفسد صومه لأن فساد الصوم في الجماع عرف نصا والجماع قضاء الشهوة بمماسة العضو العضو ولم يوجد وكذا إذا جامع بهيمة ولم ينزل أو ميتة ولم ينزل أو ناكح بيده ولم ينزل أو جامع فيما دون الفرج ولم ينزل وإن أنزل في هذا الوجوه كان عليه القضاء دون الكفارة لوجود قضاء الشهوة بصفة النقصان ومن الناس من قال لا يفسد صومه في الاستمتاع بالكف وهل يباح له أن يفعل ذلك في غير رمضان إن أراد الشهوة لا يباح وإن أراد تسكين الشهوة قالوا نرجو أن لا يكون إثما۔ فقط (فی الفتاوى الخانية بهامش الهندية ١/٢٠٨ دارالفكر بیرات)
الفقه الحنفي في ثوبه الجديد میں ہے۔
يكره للصائم فعل مقدمات الجماع ودواعيه كالقبلة والمعانقة والمس إذا لـم يـأمـن الـوقوع في مفسد الصوم وهو الإنزال أو الجماع وفي الصحيحين عن عائشة قـالـت كـان رسـول الـلـه صلی اللہ علیہ وسلم یقبل وهو صائم ويباشر وهو صائم ولكنه أملككم لإربه ـ الفقه الحنفي في ثوبه الجديد ٤٢٢/١)
البحر الرائق میں ہے۔
واللمس والمباشرة والمصافحة والمعانقة كالقبلة ولا كفارة عليه لأنها تفتقر إلى كمال الجناية لما بينا أن الغالب فيها العقوبة لأن الكفارة لجبر الفائت وهو قد حصل فكانت زاجرة فقط ولهذا تندرئ بالشبهات. ولا بأس بالقبلة إذا أمن على نفسه الجماع والانزال، ويكره إذا لم يأمن لأن عينه ليس بمفطر ربما يصير فطرا بعاقبته، فإن أمن اعتبر عينه وأبيح له، وإن لم يأمن اعتبر عاقبته ويكره له والمباشرة كالقبلة في ظاهر الرواية. وعن محمد أنه كره المباشرة الفاحشة، واختار في فتح القدير رواية محمد لأنها سبب غالب للانزال، وجزم بالكراهة من غير ذكر خلاف الولوالجي في فتاواه، ويشهد للتفصيل المذكور في القبلة الحديث من ترخيصه للشيخ ونهيه الشاب والتقبيل الفاحش كالمباشرة الفاحشة وهو أن يمضغ شفتيها۔ (البحر الرائق ٢/٤٧٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں