منگل، 5 اپریل، 2022

والدین اور شوہر کا مال ان کی اجازت کے بغیر استعمال کرنا سوال نمبر ٢٧٢

 سوال

اسلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

سوال یہ ہے کہ والدین کی اجازت کے بغیر انکی کسی بھی چیز کو یا انکے پیسے کو یا اپنی زاتی گھر کی دکان سے والدین کی اجازت کے بغیر پیسے لینا اگر ضرورت ہو جیسے اپنے بیوی پچوں پر خرچ کرنے کے لیے اگر والدین نہ دیوے جبکہ تمام گھر والوں کے کمانے کے لیے صرف ایک ذریعہ ہو( دکان) تو لینا کیسا ہے اور  بلا ضرورت لینا کیسا ہے؟  اور بیوی کا اپنے شوہر کے جیب سے پیسے لینا شوہر کی اجازت کے بغیر اپنے لیے یا اپنے پچوں کے لیے کیسا ہے قرآن وحدیث کی روشنی میں مکمل جواب دیں۔

سائل : عبدالرحمن ماجد احمدآباد 


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


بالغ اولاد جو کمانے کے لائق ہوں معذور نہ ہو ، ان کے لئے والدین کے مال میں سے چاہے ضرورت ہو یا نہ ہو بغیر اجازت مال لینا جائز نہیں ہے، البتہ جو بچے نابالغ ہوں یا معذور ہوں، ان کے لئے والدین کی اجازت کے بغیر  بقدرِ ضرورت نان ونفقہ کے لیے معروف مال لینے کی گنجائش ہے، تاہم ان کی اجازت لے کر خرچ کرنا چاہیے، لہذا اولاد اپنے والد کی اجازت کے بغیر اس کی کمائی استعمال نہیں کر سکتا، ہاں والد کی اجازت سے لے سکتا ہے اور اجازت ہو تو استعمال بھی کرسکتا ہے۔


بیوی بچوں کا نان نفقہ شوہر پر لازم ہے اور شوہر جو کمائی کرتا ہے اس میں بیوی بچوں کا بھی حصہ ہوتا ہے۔ شوہر باوجود صاحبِ وسعت ہونے کے  گھر کے ضروری اخراجات کے لیے پورے پیسے نہ دے، اور بخل سے کام لے  تو بیوی کے لیے اس بات کی گنجائش ہے، اسراف سے بچتے ہوئے میانہ روی سے گھر کا خرچہ چلانے کے لیے جتنے پیسوں کی ضرورت ہو اتنے پیسے شوہر سے پوچھے بغیر نکال سکتی ہے، اس سلسلہ میں ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ہند نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کے پاس آئیں اور عرض کیا اللہ کے رسول ابو سفیان کنجوس آدمی ہیں اگر ان کے مال میں سے ان کی اجازت کے بغیر ان کی اولاد کے کھانے پینے پر کچھ خرچ کر دوں تو کیا میرے لیے کوئی گناہ ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا :معروف (عام دستور)کے مطابق لے کر خرچ کرنے میں تمھارے لیے کوئی حرج نہیں۔

مذکورہ حدیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ایک بخیل شوہر سے اپنا حق لینا اس کے علم کے بغیر بھی جائز ہے، جبکہ وہ معروف یعنی عرف ودستور کی حد میں ہو. البتہ  شوہر کے مال میں سے کوئی بڑی رقم یابڑی چیز لینی ہو جس کا عرف میں بغیر اجازت لینا صحیح نہ ہو تو شوہر کی اجازت سے ہی لیا جائے گا۔


فتاوی الهندیہ میں ہے۔

نفقة الأولاد الصغار على الأب لايشاركه فيها أحد ... فإن أبى أن يكتسب وينفق عليهم يجبر على ذلك، ويحبس كذا في المحيط. وإن كان لايقدر على الكسب يفرض القاضي عليه النفقة ويأمر الأم حتى تستدين على زوجها، ثم ترجع بذلك على الأب إذا أيسر، وكذا إذا كان الأب يجد نفقة الولد يمتنع من الإنفاق يفرض القاضي عليه النفقة، ثم ترجع الأم عليه بذلك، وكذا لو فرض القاضي على الأب نفقة الولد فتركه الأب بلا نفقة واستدانت وأنفقت بأمر القاضي كان لها أن ترجع بذلك على الأب، ويحبس الأب بنفقة الولد (فتاوی الهندیة ١/۵٦١)


سنن أبي داود میں ہے۔

عن عائشة رضي الله عنها قالت:جاءت ھند إلي النبي صلى الله عليه السلام فقالت، يارسول الله، إن اباسفيان رجل ممسک،فھل علی من حرج أن أنفق على عياله من ماله بغير أذنه؟ فقال النبي عليه السلام لا حرج عليك أن تنفقی بالمعروف (سنن أبي داود، كتاب الاجارة، حديث نمبر ٣٥٣٣)۔واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: