جمعرات، 7 اپریل، 2022

دورکعت والی نماز میں دو کے بجائے تین رکعت پڑھادی تو کیا حکم ہے؟ سوال نمبر ٢٧٧

 سوال

السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

مفتی صاحب مسئلہ یہ پوچھنا تھا، کہ امام صاحب دو رکعت کے بجائےاگر تین رکعت پڑھا کر گھر چلے جائے، اور مقتدی حضرات بھی اپنے اپنے گھر چلے جائیں، تو اس نماز کے لوتانے کی کیا صورت ہے۔ آپ ہماری رہنمائی فرمائیں،

سائل: مولانا حزیفہ بن مولانا یوسف صاحب آچھودی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


اگر دورکعت والی نماز میں تین رکعت پڑھادی ہے اور قاعدۂ اخیرہ کرلیا تھا اور آخر میں سجدۂ سہو کرلیا تو نماز ہوگئی


اور اگر سجدۂ سہو نہیں کیا اور ابھی نماز کا وقت باقی ہے تو اعادہ واجب ہے اور نماز کا وقت ختم ہوگیا تو اعادہ واجب نہیں ہے نماز ہوجائے گی


لیکن اگر تین رکعتیں پڑھا دی اور قاعدۂ اخیرہ نہیں کیا تو ایک رکن رہ جانے وجہ سے نماز نفل کے حکم میں ہوگی باقاعدہ مسجد میں اعلان کرنا ہوگا کہ جنہوں نے آج فجر کی نماز ہمارے پیچھے پڑھی ہے وہ اپنی نماز لوٹالے۔


تراویح میں بھی یہی حکم ہے البتہ تراویح سنت مؤکدہ ہے اور سنن کی قضاء نہیں ہوتی اس لئے صبح صادق سے پہلے تک اس کا اعادہ لازم ہوگا اور اگر صبح صادق ہوجائے تو اعادہ نہیں کرسکتے۔


ان رکعتوں کی جو قرأت رہ گئی ہے  دوسرے دن تراویح کی رکعتوں میں دوہرائی جا سکتی ہے، اس سے تراویح میں مکمل قرآن سننے کی  سنت ادا ہوجائے گی۔


فتاوی شامی میں ہے۔

( ولو سها عن القعود الأخير ) كله أو بعضه ( عاد ) ويكفي كون كلا الجلستين قدر التشهد ( ما لم يقيدها بسجدة ) لأن ما دون الركعة محل الرفض وسجد للسهو لتأخير القعود ( وإن قيدها ) بسجدة عامدا أو ناسيا أو ساهيا أو مخطئا ( تحول فرضه نفلا برفعه ) الجبهة عند محمد۔(الدر المختار وحاشية ابن عابدين ٢/۵۵٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

اذا فاتت التراویح لا تقضی بجماعۃ ولا بغیرہا وہو الصحیح(فتاوی عالمگیری ١/١١۵)


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: