سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
رمضان المبارک میں مغرب کی نماز اذان کےدس منٹ کے بعد پڑھ سکتے ہیں یا نہیں؟ صحیح جواب دیں۔
سائل: ابو معاذ ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
رمضان کے علاوہ اور ایام میں مغرب کی اَذان اور نماز میں تعجیل مستحب ہے اور اسی استحباب کی بناء پر فقہاء نے کچھ تاخیر کی گنجائش دی ہے جس کا اندازہ تین چھوٹی آیتیں پڑھنے کے بقدر منقول ہے، یعنی جب سورج یقینی طور پر غروب ہوجائے تو اذان کہی جائے، پھر صرف تین چھوٹی آیتوں یا ایک بڑی آیت کے بہ قدر وقفے سے اقامت شروع کردی جائے، حضرت مولانا مفتی محمد عزیر الرحمن صاحب دیوبندی (مفتی اول دار العلوم دیوبند) نے ایک فتوے میں فرمایا :” چھوٹی تین آیتیں آدھے منٹ سے بھی کم میں پڑھ سکتے ہیں“ (فتاوی دار العلوم دیوبند، ۲/۳٩، سوال: ۲۵، مطبوعہ: مکتبہ زکریا دیوبند) اور بلا عذر ومجبوری ۲/ منٹ یا اس سے زیادہ تاخیر مکروہ تنزیہی ہے اور ستارے اچھی طرح ظاہر ہوجانے تک (بلا عذر ومجبوری) تاخیر کرنا مکروہ تحریمی ہے۔
البتہ ماہِ رمضان میں مغرب کی نماز دس، پندرہ منٹ تاخیر سے پڑھنے میں کوئی حرج نہیں ہے تاکہ روزہ دار حضرات اطمینان سے افطارسے فارغ ہوکر جماعت میں شریک ہو سکیں۔
کتاب النوازل میں حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری ایک ایسے ہی سوال کے جواب میں فتاوی دارالعلوم دیوبند کے حوالے سے تحریر فرماتے ہیں کہ تکبیر وجماعت کی خاطر رمضان المبارک میں مغرب کی اذان اور نماز کے درمیان کم وبیش دس منٹ کا وقفہ دینا افضل ہے؛ تاکہ اس مبارک مہینہ میں سب لوگوں کو جماعت میں شرکت کا ثواب مل سکے۔ (مستفاد: فتاویٰ دارالعلوم دیوبند ۲؍۲۵، اکابر کا رمضان ۴۲)
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ تعالیٰ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ تعالیٰ علیہ وسلم قال لبلال: واجعل بین أذانک وإقامتک قدر ما یفرغ الآکل من أکلہ والشارب من شربہ، والمعتصر إذا دخل لقضاء حاجتہ الخ۔ (سنن الترمذي رقم: ۱۹۵، مشکاۃ المصابیح رقم: ۶۴۷)
ویفصل بین الأذان والإقامۃ لکراہۃ وصلہما لقولہ علیہ السلام لبلال: اجعل بین أذانک وإقامتک نفساً حتی یقضي المتوضئ حاجتہ في مہل، وحتی یفرغ الآکل من أکل طعامہ في مہل بقدر ما یحضر الملازمون … ولأن المقصود بالأذان إعلام الناس بدخول الوقت لیتہیّؤا للصلاۃ بطہارۃ فیحضروا المسجد وبالوصل ینتفي ہٰذا المقصود … الحاصل أن التاخیر الییر للإعانۃ علی الخیر غیر مکروہ۔ (حاشیۃ الطحطاوي علی مراقي الفلاح / باب الأذان ۱۵۹، تبیین الحقائق ۱؍۹۲ إمدادیۃ ملتان)
وأخّر المغرب إلی اشتباک النجوم أي کثرتہا کرہ أي التاخیر لا الفصل؛ لأنہ مأمور بہ تحریمًا إلا بعذر کسفر، وکونہ علی أکل أي لکراہۃ الصلاۃ مع حضور طعام تمیل إلیہ نفسہ، ولِحدیث: إذا أقیمت الصلاۃ وحضر العشاء فأبدَؤوا بالعشاء۔ (رواہ الشیخان، درمختار مع الشامي ۲؍۲۷-۲۸ زکریا)۔ (کتاب النوازل ٣/٢٥٤)
المبسوط للسرخسي میں ہے۔
فأما صلاة المغرب فالمستحب تعجیلھا في کل وقت، وقد بینا أن تأخیرھا مکروہ، وکان عیسی بن أبان رحمہ اللہ تعالی یقول: الأولی تعجیلھا للآثار ولکن لا یکرہ التأخیر مطلقاً ألا تری إلخ (المبسوط للسرخسي، ۱/١٤٧ ط: دارالمعرفة، بیروت)
الفتاوی السراجیة میں ہے۔
تاخیر المغرب مکروہ إلا بعذر السفر أو بأن کان علی المائدة، البدایة بصلاة المغرب أولی من صلاة الجنازة (الفتاوی السراجیة، ص: ۵۷، ط: مکتبة الاتحاد دیوبند)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے۔
عن جابر بن عبد اللّٰہ رضي اللّٰہ عنہ أن رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم قال لبلال: إذا أذنت فترسّل، واجعل بین أذانک وإقامتک قدر ما یفرغ الاٰکل من أکلہ والشارب من شربہ۔
قال الملا علي القاري تحت قولہ: الشارب من شربہ: قال ابن الملک: کأنہ في المغرب لضیق وقتہ۔ (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکاۃ المصابیح / باب الأذان ۲/۳۱۸ تحت رقم: ٦٤۷)
فتاوی شامی میں ہے۔
وأخّر المغرب إلی اشتباک النجوم أي کثرتہا کُرہ أي التاخیر … تحریماً إلا بعذر کسفر وکونہ علی أکل (درمختار) وفي الشامي: واقتصر في الإمداد وغیرہ علی ذکر الاستثناء في المغرب، وعبارتہ إلا من عذر، کسفر ومرض وحضور مائدۃ أو غیم۔ (فتاوی شامي ٢/۲۷ زکریا)
طحطاوی میں ہے۔
ویفصل بین الأذان والإقامۃ بقدر ما یحضر القوم الملازمون للصلاۃ للأمر بہ مع مراعاۃ الوقت المستحب، فلا یجوز التاخیرعنہ إلی المکروہ مطلقاً۔ (الطحطاوی علی المراقي ۱۰۷)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
وأما إذا کان في المغرب فالمستحب أن یفصل بسکتۃ یسکت قائما مقدار بما یتمکن من قراء ۃ ثلاث آیات قصار۔ (الفتاوی الہندیۃ ١/۵٧) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں