سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب مسئلہ زیر طلب یہ تھا کہ اکیلے تراویح پڑھنا کیسا ہے، آپ رہنمائی فرمائیں،
سائل: مولانا حزیفہ بن مولانا یوسف صاحب آچھودی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے دورِ خلافت میں اکابر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی موجودگی میں سب کو تراویح کی ایک جماعت کے تحت جمع کردیا تو اب تراویح کی نماز نہ صرف یہ کہ باجماعت پڑھنا مشروع ہے، بلکہ باجماعت ادا کرنا سنت ہے۔
لہذا جس طرح تراویح سنت مؤکدہ ہے اسی طرح رمضان المبارک کی ہر رات میں ہر شرعی مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھنا مستقل سنتِ موکدہ ہے لیکن تراویح کی جماعت سنت مؤکدہ علی الکفایہ ہے، یعنی اگر چند افراد مسجد میں جماعت کے ساتھ تراویح پڑھ لیں تو اہلِ محلہ کی طرف سے مسجد کی تراویح کی جماعت کی سنت ادا ہوجائے گی، اور اگر مسجد میں تراویح کی بالکل جماعت نہ ہو تو تمام اہلِ محلہ مذکورہ سنت ترک کرنے کی وجہ سے گناہ گار ہوں گے اگر محلے میں تراویح باجماعت ہوتی ہو اور کوئی شخص اکیلے پڑھلے تو حرج نہیں ہے لیکن ایسا کرنا اچھا نہیں ہے سخت محرومی کی بات ہے۔
اس سلسلے میں ایک سوال کے جواب میں تعلیم السلام کے اندر حضرت مفتی کفایت اللہ صاحب تحریر بقلم ہے کہ نماز تراویح مردوں اور عورتوں دونوں کیلئے سنت مؤکّدہ ہے اور جماعت سے پڑھنا سنّت کفایہ ہے، یعنی اگر محلّے کی مسجد میں نماز تراویح جماعت سے پڑھی جائے اور کوئی شخص گھر میں اکیلا پڑھ لے تو گنہگار نہ ہوگا ، لیکن اگر تمام محلّے والے جماعت سے نہ پڑھیں تو سب گنہگار ہونگے۔ (تعلیم الاسلام ٤/٣٤)
اسی طرح فتاوی دارالعلوم دیوبند ن لائن دارالافتاء میں ایک سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ تراویح اکیلے پڑھ لینے سے تراویح ادا ہوجائے گی لیکن جماعت کے ثواب سے محرومی رہے گی اس لیے مرد کو چاہئے کہ تراویح باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرے ، آپ وتر مسجد میں جماعت کے ساتھ ادا کرتے ہیں یہ صحیح ہے تراویح بھی باجماعت پڑھا کریں۔ (دارالافتاء،دارالعلوم دیوبند جواب نمبر ٦٦٤۵٦)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
ومنها أن الجماعة في التطوع ليست بسنة إلا في قيام رمضان۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع ١/٢٩٨)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں