سوال
روزے کی حالت میں بھولے سے کھانا کھالیا یا پانی پی لیا تو کیا حکم ہے؟ اسی طرح کھانے والے کو بھول سے کھانے والے کو آگاہ کرنا کیسا ہے؟
اسی طرح اگر کسی نے بھولے سے کھاپی لیا پھر روزہ یاد آیا اور اس نے یہ سمجھ کر کہ اب میرا روزہ ٹوٹ گیا وہ کھاتا پیتا رہا تو اس کا کیا حکم ہے؟
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
بھول کر کھانے پینے یا جماع کرنے سے روزہ فاسد نہیں ہوتا یعنی روزے کی حالت میں کسی نے کھاپی لیا اور اس کو یہ یاد نہیں ہے کہ وہ روزے سے ہیں تو اس کا روزہ فاسد نہیں ہوگا چاہے پیٹ بھر کھانا کھالے خواہ وہ روزہ فرض ہو یا نفل اس لئے کہ روزے میں بھول کر کھانا، پینا معاف ہے لہٰذا اگر کسی نے روزے میں بھول کر کھالیا یا پی لیا تو روزہ نہیں ٹوٹے گا۔
لیکن کسی روزہ دارکو ان افعال میں دیکھے تو یاد دلانا واجب ہے، یاد نہ دلایا تو گنہگار ہوگا، بشرطیکہ وہ شخص قوی ہو اور اس میں روزے سے پورا دن گزارنے کی قدرت ہو، خواہ وہ بوڑھا ہو یا جوان، البتہ اگر بھول کر کھانے والا بیمار یا کمزور ہو کہ یاد دلائے گا تو وہ کھانا چھوڑ دے گا اور کمزوری اتنی بڑھ جائے گی کہ روزہ رکھنا دشوار ہوگا اور کھا لے گا تو روزہ بھی اچھی طرح پورا کر لے گا اور دیگر عبادتیں بھی بخوبی ادا کر لے گا تو اس صورت میں یاد نہ دلانا بہتر ہے۔
بھولے سے کھاپی لیا پھر روزہ یاد آیا اور اس نے یہ سمجھ کر کہ اب میرا روزہ ٹوٹ گیا وہ کھاتا پیتا رہا اس سلسلہ میں آپ کے مسائل اور ان کا حل میں حضرت مولانا یوسف لدھیانوی صاحب تحریر فرماتے ہیں کہ: کسی نے بھولے سے کچھ کھاپی لیا تھا ، اور یہ سمجھ کر کہ اس کا روزہ ٹوٹ گیا ہے ، قصداً کھاپی لیا تو قضا واجب ہوگی کفارہ واجب نہیں ہوگا۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل ٤/۵٧۵)
مشکاة المصابیح میں ہے۔
عن أبي ھریرةقال: قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: من نسي وھو صائم فأکل أو شرب فلیتم صومہ فإنما أطعمہ اللہ وسقاہ“، متفق علیہ (مشکاة المصابیح، کتاب الصوم، باب تنزیہ الصوم، الفصل الأول، ص: ۱۷۶، ط: المکتبة الأشرفیة، دیوبند)۔
فتاوی شامی میں ہے۔
(إذا أکل الصائم أو شرب أو جامع) حال کونہ (ناسیاً) الخ (لم یفطر) (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الصوم، باب ما یفسد الصوم ومالا یفسدہ، ۳/ ۳٦۵- ۳۷۳ ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
فتاوی شامی میں ہے۔
(قولہ ویذکرہ) ای لزوما کما فی الولوالجیۃ فیکرہ ترکہ تحریما بحر وقولہ لو قویا ای لہ قوۃ علی اتمام الصوم بلا ضعف واذا کان یضعف بالصوم ولو اکل یتقوی علی سائر الطاعۃ یسعہ ان لایخبرہ فتح وعبارۃ غیرہ الاولی ان لا یخبرہ وتعبیر الزیلعی بالشباب والشیخ جری علی الغالب، ثم ھذا التفصیل جری علیہ غیر واحد وفی السراج عن الواقعات المختار انہ یذکرہ مطلقا نھر۔ (رد المحتار: ٣/٣٦۵)
فتاوی عالمگیری میں ہے۔
رجل نظر الی صائم یأکل ناسیا ان رأی فیہ قوۃ یمکنہ ان یتم الصوم الی اللیل فالمختار انہ یکرہ ان لا یذکرہ وان کان یضعف فی الصوم بأن کان شیخا کبیرا یسعہ ان لا یخبرہ۔ کذا فی الظھیریۃ فی فصل الاعذار المبیحۃ۔ (فتاوی عالمگیری ١/٢٠٢)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں