سوال
السلام علیکم سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
معتکف حالت اعتکاف میں مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے مثلاً گھر میں یا بستی میں کسی جگہ اور اس کے کیا اصول ہے؟
سائل: مولوی عامر سورتی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسجد میں کسی قسم کا نظم نہ ہوں یا نظم تو ہو لیکن کسی وجہ سے وہاں قضائے حاجت میں دشواری کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں مسجد کے باہر اپنے گھر یا کسی قریبی جگہ وہ جاسکتا ہے
اس سلسلے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے احکام اعتکاف میں بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے کہ: معتکف قضائے حاجت یعنی پیشاب پاخانے کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے، اس کے لئے مسجد کے قریب ترین جگہ جہاں پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہئے لیکن پاخانے کے لئے جانے میں تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہواہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہئے کہیں اور جانا درست نہیں لیکن اگر کسی شخص کیلئے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس غرض کے لئے اپنے گھر چلا جائے خواہ مسجد کے قریب بیت الخلا ء موجود ہو۔
لیکن جس شخص کو یہ مجبوری نہ ہو اور وہ مسجد کا بیت الخلاءچھوڑ کر چلا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جا ئے گا۔
لیکن اگر مسجد میں کوئی بیت الخلاء نہ ہو یا اس میں قضائے حاجت ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر جانا جائزہے خواہ وہ گھر کتنی ہی دور ہو۔
اگر مسجد کے قریب کسی دوست یا عزیز کا گھر موجود ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے اس دوست کے گھر جانا ضروری نہیں بلکہ اس کے باوجود اپنے گھر جانا جائز ہے خواہ اس دوست یا عزیز کے مکان کے مقابلے میں گھردور ہو۔
اگر کسی شخص کے دوگھر ہوں تو اس کو چاہئے کہ قریب والے گھر میں جا کر قضائے حاجت کریں دور والے گھر میں جانے سے بعض علماء کے نزیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی ٹھرنا جائز نہیں اگر ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
بیت الخلاء کو جاتے یا وہاں سے آتے وقت راستے میں یا گھر میں کسی کو سلام کرنا سلام کا جواب دینا یا مختصر بات چیت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس بات چیت کیلئے ٹھرنا نہ پڑے۔
بیت الخلا کیلئے جاتے یا وہاں سے آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں ، آہستہ آہستہ چلنا بھی جائز ہے۔
قضائے حاجت کیلئے جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے ٹھہرنا نہیں چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں اس کے لئے ٹھہر نہیں سکتا اگر کسی کے ٹھہرانے سے کچھ دیر ٹھہر گیا تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا یہاں تک کہ اگر راستے میں کسی قرض خواہ نے روک لیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جاتاہے اگرچہ صاحبین کے نز دیک ایسی مجبوری سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور امام سرخسی نے سہولت کی بناء پر صاحبین کے ہی قول کی طرف رجحان ظاہر کیاہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ کسی بھی صورت میں راستے میں نہ ٹھہرے۔
جب بیت الخلاء جانے کیلئے نکلا ہو بیڑی سگریٹ پینا جائز ہے بشرطیکہ اس غرض سے ٹھہرنا نہ پڑے جب کوئی شخص قضائے حاجت کیلئے اپنے گھر گیا ہو تو قضاء حاجت کے بعد وہاں وضو کرنا بھی جائز ہے۔
قضائے حاجت میں استنجاء بھی داخل ہے لہذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہوتا ہے وہ اگر صرف استنجاء کیلئے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں اسی لئے بعض فقہاء نے استنجا ء کو قضائے حا جت کے علاوہ خروج کا مستقل عذر قرار دیا ہے۔ (احکام اعتکاف فضائل و مسائل ص ۵٠ حضرت علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا وبرکاتہ
معتکف حالت اعتکاف میں مسجد کے علاوہ کسی اور جگہ قضائے حاجت کے لئے جاسکتا ہے مثلاً گھر میں یا بستی میں کسی جگہ اور اس کے کیا اصول ہے؟
سائل: مولوی عامر سورتی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
مسجد میں کسی قسم کا نظم نہ ہوں یا نظم تو ہو لیکن کسی وجہ سے وہاں قضائے حاجت میں دشواری کا سامنا ہو تو ایسی صورت میں مسجد کے باہر اپنے گھر یا کسی قریبی جگہ وہ جاسکتا ہے
اس سلسلے میں حضرت مفتی تقی عثمانی صاحب نے احکام اعتکاف میں بہت اچھی وضاحت فرمائی ہے کہ: معتکف قضائے حاجت یعنی پیشاب پاخانے کی ضرورت سے مسجد سے باہر نکل سکتا ہے جہاں تک پیشاب کا تعلق ہے، اس کے لئے مسجد کے قریب ترین جگہ جہاں پیشاب کرنا ممکن ہو وہاں جانا چاہئے لیکن پاخانے کے لئے جانے میں تفصیل ہے کہ اگر مسجد کے ساتھ کوئی بیت الخلاء بنا ہواہے اور وہاں قضائے حاجت کرنا ممکن ہے تو اسی میں قضائے حاجت کرنا چاہئے کہیں اور جانا درست نہیں لیکن اگر کسی شخص کیلئے اپنے گھر کے سوا کسی اور جگہ قضائے حاجت طبعاً ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو اس کے لئے جائز ہے کہ اس غرض کے لئے اپنے گھر چلا جائے خواہ مسجد کے قریب بیت الخلا ء موجود ہو۔
لیکن جس شخص کو یہ مجبوری نہ ہو اور وہ مسجد کا بیت الخلاءچھوڑ کر چلا جائے تو بعض علماء کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جا ئے گا۔
لیکن اگر مسجد میں کوئی بیت الخلاء نہ ہو یا اس میں قضائے حاجت ممکن نہ ہو یا سخت دشوار ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے گھر جانا جائزہے خواہ وہ گھر کتنی ہی دور ہو۔
اگر مسجد کے قریب کسی دوست یا عزیز کا گھر موجود ہو تو قضائے حاجت کے لئے اپنے اس دوست کے گھر جانا ضروری نہیں بلکہ اس کے باوجود اپنے گھر جانا جائز ہے خواہ اس دوست یا عزیز کے مکان کے مقابلے میں گھردور ہو۔
اگر کسی شخص کے دوگھر ہوں تو اس کو چاہئے کہ قریب والے گھر میں جا کر قضائے حاجت کریں دور والے گھر میں جانے سے بعض علماء کے نزیک اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
اگر بیت الخلاء مشغول ہو تو خالی ہونے کے انتظار میں ٹھرنا جائز ہے لیکن ضرورت سے فارغ ہونے کے بعد ایک لمحے کے لئے بھی ٹھرنا جائز نہیں اگر ٹھہر گیا تو اعتکاف ٹوٹ جائے گا۔
بیت الخلاء کو جاتے یا وہاں سے آتے وقت راستے میں یا گھر میں کسی کو سلام کرنا سلام کا جواب دینا یا مختصر بات چیت کرنا جائز ہے بشرطیکہ اس بات چیت کیلئے ٹھرنا نہ پڑے۔
بیت الخلا کیلئے جاتے یا وہاں سے آتے وقت تیز چلنا ضروری نہیں ، آہستہ آہستہ چلنا بھی جائز ہے۔
قضائے حاجت کیلئے جاتے وقت کسی شخص کے ٹھہرانے سے ٹھہرنا نہیں چاہئے بلکہ چلتے چلتے اسے بتا دینا چاہئے کہ میں اعتکاف میں ہوں اس کے لئے ٹھہر نہیں سکتا اگر کسی کے ٹھہرانے سے کچھ دیر ٹھہر گیا تو اس سے اعتکاف ٹوٹ جائے گا یہاں تک کہ اگر راستے میں کسی قرض خواہ نے روک لیا تو امام ابو حنیفہؒ کے نزدیک اس کا اعتکاف ٹوٹ جاتاہے اگرچہ صاحبین کے نز دیک ایسی مجبوری سے اعتکاف نہیں ٹوٹتا اور امام سرخسی نے سہولت کی بناء پر صاحبین کے ہی قول کی طرف رجحان ظاہر کیاہے لیکن احتیاط اسی میں ہے کہ کسی بھی صورت میں راستے میں نہ ٹھہرے۔
جب بیت الخلاء جانے کیلئے نکلا ہو بیڑی سگریٹ پینا جائز ہے بشرطیکہ اس غرض سے ٹھہرنا نہ پڑے جب کوئی شخص قضائے حاجت کیلئے اپنے گھر گیا ہو تو قضاء حاجت کے بعد وہاں وضو کرنا بھی جائز ہے۔
قضائے حاجت میں استنجاء بھی داخل ہے لہذا جن لوگوں کو قطرے کا مرض ہوتا ہے وہ اگر صرف استنجاء کیلئے باہر جانا چاہیں تو جاسکتے ہیں اسی لئے بعض فقہاء نے استنجا ء کو قضائے حا جت کے علاوہ خروج کا مستقل عذر قرار دیا ہے۔ (احکام اعتکاف فضائل و مسائل ص ۵٠ حضرت علامہ مفتی تقی عثمانی صاحب دامت برکاتھم العالیہ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں