سوال
السلام عليكم ورحمۃاللہ وبركاته
حضرت مفتی صاحب سے یہ سوال ہے کے مقتدی کے لیے وتر کی نماز کے لیے الگ سے نیّت کرنا ضروری ہے کے امام کی نیّت کافی ہے ؟؟؟
مثال کے طور پر آج تراویح میں یہ ہوا کے لوگوں کو شک ہوگیا کے ۱۶ رکعت ہوئی کے ۲۰ رکعت پھر امام نے جلدی سے تکبیر تحریمہ کہدی تو بعض نے وتر کی نیّت کی اور بعض نے تراویح کی حالاں کے تراویح کی ۲۰ رکعت ہو چکی تھی تو اب وتر کی نماز لوٹاني پڑےگی یا نہیں ؟؟؟ اللہ آپ کو خوب جزاء خیر عطا فرمائے
سائل: یحییٰ پالنپوری
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
احناف رحمہم اللہ کے نزدیک امام اور مقتدی کی اقتداء کی تین صورتیں ہے ۔
(١) امام اور مقتدی دونوں کی نیت ایک ہو یعنی امام اگر ظہر پڑھ رہاہے تو مقتدی بھی اسی دن کی ظہر کی نیت سے اقتداء کریں، اس صورت میں اقتداء صحیح ہوجائے گی۔
(٢) امام اور مقتدی کی نیت الگ الگ ہو لیکن مقتدی کی نیت اعلی ہو اور امام کی نیت ادنی ہو جیسے امام نفل یا سنت کی نیت سے نماز ادا کریں اور مقتدی فرض کی نیت کریں، اس صورت میں اقتداء صحیح نہیں ہوگی۔
(٣) امام اور مقتدی کی نیت الگ الگ ہو لیکن امام کی نیت اعلی ہو اور مقتدی کی نیت ادنی ہو، جیسے امام فرض یا واجب کی نیت سے نماز ادا کریں اور مقتدی نفل یا سنت کی نیت سے اقتداء کریں، اس صورت میں اقتداء صحیح ہوجائے گی لیکن جس کی نیت کی ہے وہی نماز ادا ہوگی۔
صورت مسئولہ میں جن مقتدیوں نے وتر میں تراویح کی نیت کی ہے ان کی وتر ادا نہیں ہوگی دوبارہ لوٹانی ہوگی اس لئے کہ وتر واجب ہے اور فرض یا واجب یہ سنت یا نفل کی نیت سے ادا نہیں ہونگے لہذا اس کے لئے امام صاحب اگر بیس رکعت پوری ہونے پر ایسا کوئی اشارہ دیں دے تو بہتر ہے تاکہ مقتدیوں کے لئے نیت میں آسانی ہوجائے۔
فتاوی شامی میں ہے۔
ولا مفترض بمتنفل وبمفترض فرض آخر؛ لأن اتحاد الصلاتین شرط عندنا، وصح أن معاذاً کان یصلي مع النبي صلی اللہ علیہ وسلم نفلاً وبقومہ فرضاً اھ(الدرالمختار ۲/ ۳۲٤،۳۲۵کتاب الصلاة، باب الإمامة ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں