جمعہ، 1 اپریل، 2022

سحری کے متعلق مسائل سوال نمبر ٢٦٣

 سوال

سحری کھانا شرعاً کیسا فرض ہے واجب ہے یا سنت ہے؟ اور اگر سحری نہ کریں تو کیا حکم ہے؟ اسی طرح آنکھ نہ کھلے تو بلا سحری روزہ رکھنا ضروری ہے یا روزہ چھوڑدے؟ اور حدیث میں سحری کو برکت کہا ہے تو برکت کا کیا مطلب ہے؟ نیز آنکھ کھلی اور کھانا پینا شروع کیا لیکن وقت اتنا کم ہے کہ شک واقع ہو گیا کہ وقت ہے یاختم ہو گیا تو ان صورتوں میں کیا کریں مدلل جواب مطلوب ہے؟


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


سحری کھانا سنت ہے

احادیث میں سحری کھانے کی فضائل بیان کئے گئے ہیں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سحری کا کھانا کھاؤ کیونکہ اس میں برکت ہے، اسی طرح ایک اور روایت ہے کہ ایک صحابی اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت سحری کا کھانا تناول فرما رہے تھے۔ اس موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ سحری کا کھانا ایسا بابرکت ہے جو اللہ تعالیٰ نے تمہیں اپنے فضل و کرم سے عطا کیا ہے لہٰذا اس کو مت چھوڑو، لہذا روزہ رکھنے کے لیے سحری کرنا سنت ہے، فرض یا واجب نہیں ہے، لہذا رات کو سحری کھانے کے لیے آنکھ نہیں کھلی یا آنکھ کھلی، لیکن کھانے کے لیے کچھ دست یاب نہ ہوا تو سحری کے بغیر ہی روزہ  کی نیت کرکے روزہ  رکھنا ضروری ہے۔


سحری کھانا سنت ہے اگر بھوک نہ ہو اور کھانا نہ کھاۓ تو کم سے کم دو تین چھوارے ہی کھالے یا کوئی اورچیز کھالے اور اگر کچھ ارادہ نہ ہوتو کم سے کم ایک چائے کی پیالی ہی صحیح یا تھوڑا سا پانی ہی پی لے، اور اگر آنکھ نہ کھلے تو بلا سحری ہی روزہ رکھنا لازم اور ضروری ہے، اس لئے کہ رمضان کا روزہ فرض ہے اس کو سحری میں بیدار نہ ہونے کی وجہ سے چھوڑ دینا کم ہمتی اور گناہ کا کام ہے،


برکت کے معنی

برکت کے لغوی معانی اضافہ، زیادتی و کثرت اور  دائمی سعادت و خوش بختی استحکام ہمیشگی، بڑھوتری، نشوونما اور خیر کثیر کا نام ہے۔ (المعجم المعانی، لسان العرب، مختار الصحاح، معجم اللغۃ العربیہ المعاصرہ) امام راغب اصفہانی نے سورہ اعراف آیت نمبر ٩٦ کے تحت برکت کا ایک معنی خیرِ الٰہی لکھا ہے (وَالْبَرَکَةُ ثُبُوتُ الْخَيْرِ الإلٰهیِ فی الشَّيْئِ)


متکلم اسلام حضرت مولانا الیاس گھمن صاحب نے برکت کی اس طرح سے توضیح کی ہے کہ کوئی چیز مقدار میں کم ہو لیکن اس کا فائدہ زیادہ ہو اس کو برکت کہتے ہیں۔ جیسے قرآن کریم کےالفاظ کم لیکن اس پر ملنے والا اجر وثواب زیادہ ہے اسی لیے قرآن کریم کو وَ ہٰذَا کِتٰبٌ اَنۡزَلۡنٰہُ مُبٰرَکٌ کہا گیا ہے ۔ اس اعتبار سے جب ہم دیکھتے ہیں تو کعبۃ اللہ کو بھی بابرکت کہا گیا ہے :اِنَّ اَوَّلَ بَیۡتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیۡ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًادیکھنے میں کعبۃ اللہ ایک گھر ہے لیکن دنیا بھر کے مسلمانوں کے لیے بہت بڑے اجر وثواب کا ذریعہ ہے، لہذا یہ برکت جب وقت میں آتی ہے تو تھوڑے سے عرصہ میں زیادہ کام ہوجاتے ہیں۔ یہ برکت جب مال میں آتی ہے تو عافیت کے ساتھ منافع زیادہ ہو جاتا ہے۔ یہ برکت جب اولاد میں آتی ہے تو اولاد فرمانبراد بن جاتی ہے ۔ یہ برکت جب علم میں آتی ہے تو اپنے اور دوسرے لوگوں کے لیے ذریعہ ہدایت و نجات بن جاتا ہے۔


چونکہ سحری کا کھانا برکت والا ہے اس لیے اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کھانے پینے کی متعدد احادیث مبارکہ میں تاکید فرمائی ہے، تاکہ میری امت اللہ کی طرف سے ملنے والی برکات حاصل کر سکے، حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے روزہ رکھنا ہو اسے چاہیے کہ وہ کچھ نا کچھ سحری ضرور کھائے، اسی طرح حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کیا کرو اگرچہ ایک گھونٹ پانی پینے کی صورت میں ہی ہو، اور ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ مجھ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کا بابرکت کھانا میرے پاس لاؤ۔ اور کبھی تو ایسا ہوتا تھا اس کے لیے دو کھجوریں ہی میسر ہوتی تھیں۔ (مضامین متکلم اسلام مولانا الیاس گھمن)


سحری کے وقت میں شک واقع ہوجائے۔

جیسے ہی صبح صادق ہوجائے تو سحری کا وقت ختم ہوجاتا ہے لہٰذا سحری کھانے والوں کو پانچ دس منٹ پہلے سحری بند کردینا چاہیے اگر اس طرح احتیاط پر عمل ہو تو کسی قسم کا خلط ملط واقع نہیں ہوگا۔ اور حدیث میں سحری کو تاخیر سے کرنا مستحب ہے، رسول اللہ نے اس کا حکم فرمایا ہے، لیکن اتنی تاخیر بھی نہ ہونی چاہئے کہ رات کاباقی رہنا ہی مشکوک ہوجائے، اور اگر اتنی دیر ہو جاۓ کہ صبح صادق ہونے کا شبہ ہو تو اب کچھ کھانا پینا مکروہ ہے، اور اگر شک ہونے کے باوجود بھی کھاپی لیا اور بعد میں یقینی طور پر معلوم ہوجائے کہ صبح صادق ہوجانے کے بعد کھانا پینا پایا گیا تو ان کا روزہ یقینی طور پر نہیں ہوا اور رکھ لیا تو بھی اس کے روزے کا اعتبار نہیں ہوگا لیکن صرف قضاء لازم ہوگی کفارہ لازم نہیں ہوگا، البتہ ایسے شخص کے لیے بقیہ دن میں کھانے پینے کی اجازت نہیں، بلکہ اس پر لازم ہے کہ وہ رمضان المبارک کے احترام  میں روزے داروں کی مشابہت اختیار کرے اور افطار تک کھانے پینے سے اجتناب کرے، اور اگر پورا یقین نہ ہو مثلاً یہ شبہ ہو کہ شاید اذان کچھ پہلے ہوگئی ہوگی تو ایسی صورت میں روزہ مشکوک ہوگا قضا کرلینا بہتر ہے،


متفرق کتب احادیث میں ہے۔

عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِکٍ رضی الله عنه قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صلی الله علیه وآله وسلم: تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السَّحُوْرِ بَرَکَةً. مُتَّفَقٌ عَلَیْهِ.

(أخرجه البخاري في الصحیح، کتاب الصوم، باب برکة السحور، ٢/٦٧٨ الرقم: ١٨٢٤)

(ومسلم في الصحیح، کتاب الصیام، باب فضل السحور وتأکید استحبابه واستحباب تأخیره وتعجیل الفطر، ٢/٧٧٠ الرقم: ١٠٩۵) 

(والترمذي في السنن، کتاب الصوم، باب ما جاء في فضل السحور، ٣/٨٨ الرقم: ٧٠٨)

(والنسائي في السنن، کتاب الصوم، باب الحث علی السحور، ٤/١٤٠ الرقم: ٢١٤٤)


عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ صَاحِبِ الزِّيَادِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ الْحَارِثِ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ يُحَدِّثُ عَنْ رَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَتَسَحَّرُ۔فَقَالَ:إِنَّهَا بَرَكَةٌ أَعْطَاكُمُ اللهُ إِيَّاهَا فَلَا تَدَعُوهُ۔ (سنن النسائی، رقم الحدیث ٢١٦٢)


عَنْ جَابِرٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:مَنْ أَرَادَ أَنْ يَصُومَ فَلْيَتَسَحَّرْ وَلَوْ بِشَيْءٍ۔ (المقصد العلی فی زوائد ابی یعلیٰ، رقم الحدیث ۵٠٩)


عَنْ أَنَسٍ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: تَسَحَّرُوا وَلَوْ بِجُرْعَةٍ مِنْ مَاءٍ۔(المقصد العلی فی زوائد ابی یعلیٰ، رقم الحدیث ۵١٠)


عَنْ عَائِشَةَ رَضِیَ اللہُ عَنْہَا قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَرِّبِي إِلَيْنَا الْغَدَاءَ الْمُبَارَكَ يَعْنِي: السَّحُورَ وَرُبَّمَا لَمْ يَكُنْ إِلا تَمْرَتَيْنِ۔ (المقصد العلی فی زوائد ابی یعلیٰ، رقم الحدیث ۵١١)


عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ رَضِیَ اللہُ عَنْہُ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نِعْمَ السُّحُورُ التَّمْرُ۔ (المعجم الکبیر للطبرانی، رقم الحدیث ٦٦٨٩)


فتاوی شامی میں ہے۔

 السحور كله بركة فلا تدعوه، ولو أن يـجـرع أحدكم جرعة من ماء فان الله وملائكته يصلون على المتسحرين ـ (فتاوی شامی ٣/٤٠٠)


فتاوی شامی میں ہے۔

کما تستحب : ومحل الاستحباب اذا لم یشک فی بقاء اللیل فان شک کرہ الاکل فی الصحیح ۔ (فتاوی شامی ٤۱۹/۲)


بدائع الصنائع میں ہے۔

أو تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع ثم تبين له أنه طلع فإنه يجب عليه الإمساك في بقية اليوم تشبها بالصائمين ،وهذا عندنا۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع -٤/٢٧)


الفتاوی الھندیۃ میں ہے۔

ووقتہ من حین یطلع الفجر الثانی وھو المستطیر المنتشر فی الافق الی غروب الشمس۔ (الفتاوی الھندیۃ ۱۲۵/۱)


الفتاوی التاتار خانیۃ میں ہے۔

ثم التسحر مستحب، والمستحب تاخیرہ و، تاخیر السحور انما یکون مستحبا اذالم تکن فی السماء علۃ وھو غیر شاک فی وقوع اکلہ فی النہار۔ ( الفتاوی التاتار خانیۃ ۳۵۵/۳ زکریا )


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

یکرہ تأخیر السحر إلی وقت یقع فیہ الشک۔ (الفتاوی الھندیۃ ۱/۲۰۰)


الدر المختار شرح تنوير الأبصار میں ہے

أو تسحر أو أفطر يظن اليوم  أي الوقت الذي أكل فيه ليلاً و  الحال أن الفجر طالع والشمس لم تغرب لف ونشر ويكفي الشك في الأول دون الثاني عملاً بالأصل فيهما ولو لم يتبين الحال لم يقض في ظاهر الرواية والمسألة تتفرع إلى ستة وثلاثين محلها المطولات  قضى في الصور كلها فقط (الدر المختار شرح تنوير الأبصار زکریا ٣/٣٨٠)


البحر الرائق میں ہے۔

وأشار المصنف بالمسألتين إلى أصل وهو أن كل من صار في آخر النهار بصفة لو كان في أول النهار عليها للزمه الصوم فعليه الإمساك كالحائض والنفساء تطهر بعد طلوع الفجر أو معه والمجنون يفيق والمريض يبرأ والمسافر يقدم بعد الزوال أو الأكل  والذي أفطر عمدا أو خطأ أو مكرها أو أكل يوم الشك ثم استبان أنه من رمضان أو أفطر وهو يرى أن الشمس قد غربت أو تسحر بعد الفجر ولم يعلم ومن لم يكن على تلك الصفة لم يجب الإمساك كما في حالة الحيض والنفاس۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ٢/٣١١)


بدائع الصنائع میں ہے۔

ولو تسحر على ظن أن الفجر لم يطلع فإذا هو طالع أو أفطر على ظن أن الشمس قد غربت فإذا هي لم تغرب فعليه القضاء ولا كفارة لأنه لم يفطر متعمدًا بل خاطئًا ألا ترى أنه لا إثم عليه۔ (بدائع الصنائع في ترتيب الشرائع - ٤/٢۵٧)


فتاوی شامی میں ہے۔

( أو أفـطـر يـظـن الـيـوم أى وقـت الـذي أكل فيه ليلا و الحال أن الفجر طلع والشـمـس لـم تـغـرب (شامی ۳۸۰/۳) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

کوئی تبصرے نہیں: