سوال
السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ
خیریت سے رہ کر خیریت کا طلبگار ہوں امید ہے کہ آپ لوگ بھی خیروعافیت سے ہوں گے۔
ایک ضروری بات عرض یہ کرنا ہے کہ میری دوبیٹیاں مکمّل حافظ قرآن ہیں کیا میری دونوں بیٹیاں رمضان المبارک میں اپنے گھر کی عورتوں کو صرف تراویح کی نماز میں قرآن پاک سنا سکتی ہیں یا نہیں.. یا سنانے کی کیا ترکیب ہے ہماری رہنمائی فرمائیں؟
سائل: محمد اسلم فیضی ہنگولی مہاراشٹر
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
تنہا عورتوں کا جماعت سے نماز پڑھنا یعنی عورت کا عورتوں کے لیے امام بننا کتب فتاوی میں مکروہِ تحریمی اور ممنوع قرار دیاہے، تراویح ہو یا دیگر نمازیں دونوں کا ایک ہی حکم ہے، اور اگر تراویح کا اہتمام اس طرح کیاجائے کہ دیگر گھروں سے بھی عورتیں آکر اس عورت کے پیچھے تراویح پڑھیں تو اس میں اور بھی بہت سے مفاسد و خرابیاں ہیں؛ اس لیے ایسا کرنا جائز نہیں، خواتین کے لیے یہی حکم ہے کہ وہ تنہا اپنی نماز ادا کریں تراویح کی جماعت نہ کریں۔
فتاوی دارالعلوم دیوبند میں اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں لکھاہے کہ عورتوں کی جماعت اس طرح کہ عورت ہی امام ہو مکروہ ہے خواہ اس کے پیچھے غیر حافظہ عورتیں تراویح پڑھیں تب بھی مکروہ ہی ہے اور چاہے جتنی عورتیں اقتداء کریں پھر بھی یہی حکم ہے کہ مکروہ ہے فتاوی شامی، فتاویٰ دارالعلوم نیز دیگر معتبر فتاویٰ سے اسی طرح ثابت ہے اگر دیگر مکانوں سے عورتیں آکر عورت کے پیچھے تراویح پڑھتی ہیں تو اس میں اور بھی بہت سے مفاسد و خرابیاں ہیں اس لیے ایسا کرنا ناجائز ہے۔ (فتاوی دارالعلوم دیوبند جواب نمبر: ٦٦٦٩١)
لیکن اگر کوئی عورت حافظہ ہو اور اس کے لئے تراویح میں سنائے بغیر قرآن کریم یاد رکھنا مشکل ہو تو چونکہ قرآن پاک کو بھلادینا بھی بڑا گناہ ہے اس لئے اس گناہ سے بچنے اور قرآن کریم کو یاد رکھنے کی غرض سے بعض علمائے کرام نے حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا کی روایت امامت کو سامنے رکھتے ہوئے حافظہ عورتوں کے لئے کچھ شرائط کے ساتھ تراویح کی امامت کی گنجائش دی ہے وہ شرائط یہ ہے۔
تداعی سے پرہیز کیا جائے تداعی کا مطلب یہ ہے کہ باقاعدہ اہتمام کر کے خواتین کو نہ بلایا جائے، اقتداء کرنے والی خواتین صرف حافظہ کے گھر کی ہوں باہر سے آکر شریک نہ ہو۔حافظہ عورت کی آواز گھر سے باہر نہ جائے، عورت جب امام ہوتو وہ صف کے درمیان میں کھڑی ہوگی مرد امام کی طرح آگے کھڑی نہیں ہوگی، ان شرائط کے ساتھ صرف تراویح میں حافظہ عورتوں کی امامت کی گنجائش دی گئی ہے۔
کتاب النوازل حضرت مفتی سلمان صاحب منصورپوری تحریر بقلم ہے کہ عورت کی امامت کو فقہاء نے مکروہ تحریمی قرار دیا ہے، خواہ تراویح ہو یا کوئی اور نمازِ فرض، یا نفل؛ البتہ اگر حافظہ عورت اپنا قرآن یاد رکھنے کی غرض سے تراویح میں عورتوں کی امامت کرے تو بعض آثار سے اس کی گنجائش معلوم ہوتی ہے، اس صورت میں وہ درمیان صف میں کھڑی ہوگی، مردوں کی طرح صف سے آگے نہ بڑھے گی۔
عن عائشۃ أم المؤمنین رضي اللّٰہ عنہا أنہا کانت تؤم النساء في شہر رمضان فتقوم وسطاً، قال محمدؒ: لا یعجبنا أن تؤم المرأۃ فإن فعلت قامت في وسط الصف مع النساء کما فعلت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وہو قول أبي حنیفۃؒ۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، رمضان کے شرعی احکام: مصطفی عبد القدوس ندوی ۲۷۴، کتاب المسائل ۱؍۵۲۱)
ویکرہ تحریماً جماعۃ النساء، ولو في التراویح في غیر صلاۃ جنازۃ۔ (درمختار مع الشامي ۱؍۵۶۵ کراچی، ۲؍۳۰۵ زکریا، ۲؍۲۶۲ بیروت، ہدایۃ ۱؍۱۲۳، فتاویٰ رحیمیہ ۹؍۷۶، کتاب المسائل ۱؍۴۱۵) (کتاب النوازل ۵/٩٧)
اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں کتاب النوازل میں یہ ہے کہ اصل حکم تو یہی ہے کہ عورت کی امامت مکروہ ہے لیکن قرآنِ کریم یاد رکھنے کی غرض سے حافظہ عورت گھر کی عورتوں کے ساتھ تراویح کی جماعت کرسکتی ہے، ایسی صورت میں وہ عورتوں کی صف ہی میں کچھ ایڑی آگے بڑھاکر کھڑی ہوگی، مردوں کی طرح آگے بڑھ کر نہیں کھڑی ہوگی، اور اس طرح دو بہنوں کے ساتھ تہجد بھی پڑھ سکتی ہے۔
عن عائشۃ أم المؤمنین رضي اللّٰہ عنہا أنہا کانت تؤم النساء في شہر رمضان فتقوم وسطاً، قال محمدؒ: لا یعجبنا أن تؤم المرأۃ فإن فعلت قامت في وسط الصف مع النساء کما فعلت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وہو قول أبي حنیفۃؒ۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، رمضان کے شرعی احکام: مصطفی عبد القدوس ندوی ۲۷۴، کتاب المسائل ۱؍۵۲۱)
عن أم الحسن أنہا رأت أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تؤم النساء تقوم معہن في صفہن۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۳؍۵۶۹ رقم: ۴۹۸۹) فقط واللہ تعالیٰ اعلم۔ (کتاب النوازل ۵/٩٨)
اسی طرح فتاوی قاسمیہ میں حضرت مفتی شبیر احمد صاحب مرادنے ایک سوال کے جواب میں یہ تحریر فرمایا ہے کہ حافظہ عورت اپنا قرآن یاد رکھنے کی غرض سے اگر تراویح میں سنانا چاہے، تو اس کے لئے اس بات کی گنجائش ہے کہ وہ اپنے گھر میں اپنے ہی گھر کی عورتوں کو تراویح میں قرآن سناۓ اگرچہ یہ بھی خلاف اولی ہے لیکن قرآن یاد رکھنے کی غرض سے گھر کی عورتوں کو سنانے کی گنجائش ہے۔ اور گھر والوں کے علاوہ دیگر گھروں یا محلوں کی خواتین کا اجتماع نہ ہونا چاہئے کیوں کہ دیگر گھروں کی عورتوں کے اجتماع سے فتنہ وغیرہ کا اندیشہ ہے، اور اس طرح کی عورتوں کی جماعت میں عورت صف کے درمیان کھڑے ہوکر اتنی آواز کے ساتھ قراءت کرے گی کہ اس کی آواز جماعت میں شریک عورتوں کے کانوں تک پہنچے اور درو دیوار کے کانوں تک نہ پہنچے۔
عن عائشۃ أم المؤمنین رضي اللّٰہ عنہا أنہا کانت تؤم النساء في شہر رمضان فتقوم وسطاً، قال محمدؒ: لا یعجبنا أن تؤم المرأۃ فإن فعلت قامت في وسط الصف مع النساء کما فعلت عائشۃ رضي اللّٰہ عنہا وہو قول أبي حنیفۃؒ۔ (کتاب الآثار للامام محمدؒ ۱؍۲۰۳-۲۰۶، رمضان کے شرعی احکام: مصطفی عبد القدوس ندوی ۲۷۴، کتاب المسائل ۱؍۵۲۱)
عن أم الحسن أنہا رأت أم سلمۃ رضي اللّٰہ عنہا زوج النبي صلی اللّٰہ علیہ وسلم تؤم النساء تقوم معہن في صفہن۔ (المصنف لابن أبي شیبۃ ۳؍۵۶۹ رقم: ۴۹۸۹)۔ (فتاوی قاسمیہ ٨/٤١٠)
اسی طرح ایک اور سوال کے جواب میں تحریر فرمایا ہے کہ حضرات فقہاء نے عورتوں کی جماعت کو جس میں عورت ہی امام ہومکروہ تحریمی لکھا ہے، لیکن امام محمد علیہ الرحمہ نے’’کتاب الآثار‘‘میں حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کے رمضان میں تراویح میں عورتوں کی امامت کرنے کی روایت کے ذریعہ سے استدلال کر کے امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول نقل فرمایا ہے کہ جب عورت دوسری عورتوں کی امام بنے تو صف کے بیچ میں کھڑی ہوجاۓ مردوں کی جماعت کی طرح تنہا آگے کھڑی نہ ہو اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ تراویح کی نماز میں عورت کی امامت اگر چہ خلاف اولی ہے، لیکن بغیر کراہت تحریمی کے تراویح کے اندر درست ہوجاتی ہے اور فقہاء نے جو عورت کی امامت کو مطلقاً مکروہ تحریمی لکھا ہے وہ فرض نمازوں کی امامت پر محمول ہوگا اور بعض فقہاء نے ولو فی التراویح کی بھی قید لگائی ہے ، لیکن حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی امامت کی روایت کے ہوتے ہوۓ کراہت تحریمی کا حکم لگانا ہم کو سمجھ میں نہیں آتا اس لئے فقہاء کی ان تصریحات کے مقابلہ میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے عمل کی روایت کو ترجیح ہونی چاہئے لہذا جو خاتون حافظ قرآن ہوں گھر اور خاندان کی عورتوں کی تراویح میں صف کے درمیان میں کھڑی ہوکر امامت کرے ، تو اس میں شدت نہیں ہونی چاہئے اور تراویح میں قرآن سنانا قرآن کریم کے یاد ہونے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔ (فتاوی قاسمیہ ٨/٤٠٩)
فتاوی شامی میں ہے۔
ویکره تحریماً جماعة النساء ولو في التراویح - إلی قوله - فإن فعلن تقف الإمام وسطهن فلو قدمت أثمت إلا الخنثى فيتقدمهن كالعراة فيتوسطهم إمامهم. ويكره جماعتهم تحريما فتح ۔۔۔۔۔۔۔۔ أفاد أن الصلاة صحیحة وأنها إذا توسطت لاتزول الکراهة وإنما أرشد و إلی التوسط؛ لأنه أقل کراهة التقدم". (شامي ۲/۳۰٦ )
البحر الرائق میں ہے۔
(قوله وجماعة النساء) أي وكره جماعة النساء؛ لأنها لا تخلو عن ارتكاب محرم وهو قيام الإمام وسط الصف فيكره كالعراة كذا في الهداية وهو يدل على أنها كراهة تحريم؛ لأن التقدم واجب على الإمام للمواظبة من النبي – صلى الله عليه وسلم – عليه وترك الواجب موجب لكراهة التحريم المقتضية للإثم ويدل على كراهة التحريم في جماعة العراة بالأولی۔۔۔۔۔۔(قوله فإن فعلن تقف الإمام وسطهن كالعراة) لأن عائشة – رضي الله عنها – فعلت كذلك وحمل فعلها الجماعة على ابتداء الإسلام ولأن في التقدم زيادة الكشف وأراد بالتعبير بقوله تقف أنه واجب فلو تقدمت أثمت كما صرح به في فتح القدير والصلاة صحيحة فإذا توسطت لا تزول الكراهة وإنما أرشدوا إلى التوسط؛ لأنه أقل كراهية من التقدم كذا في السراج الوهاج، ولو تأخرت لم يصح الاقتداء بها عندنا لعدم شرطه وهو عدم التأخر عن المأموم۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ١/٣٧٢)
مراقي الفلاح میں ہے۔
وكره جماعة النساء بواحدة منهن ولا يحضرن الجماعات لما فيه من الفتنة والمخالفة فإن فعلن يجب أن يقف الإمام وسطهن مع تقدم عقبها۔ (مراقي الفلاح شرح نور الإيضاح ص ٣٠٤)۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں