اتوار، 24 اپریل، 2022

صدقۂ فطر کے مخصوص مسائل سوال نمبر ٢٩٧

 سوال

السلام علیکم ورحمۃاللہ وبرکاتہ

حضرت جی صدقہ فطر کے کیا احکام ہے شریعت میں واجب ہے یا سنت؟ اور کن لوگوں پر صدقہ فطر واجب ھوگا؟ تفصیل سے رہنمائی فرمائیں جزاک اللہ 

سائل: سیف اللہ پاکستانی


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


صدقہ فطر کس پر واجب ہے

صدقہ فطر کے وجوب اور عدم وجوب میں تفصیل یہ ہے کہ مسلمان مرد و عورت میں سے چاہے وہ بالغ ہو یا نہ ہو جو بھی صاحب نصاب ہو اور اتنا مال  ہوکہ اس پر زکاۃ واجب ہے، یا اس پر زکوۃ تو واجب نہیں ہے لیکن ضروری اسباب اور استعمال کی اشیاء سے اور قرض کی مقدار سے زائد اتنی قیمت کا مال یا اسباب اس کی ملکیت میں عید الفطر کی صبح صادق کے وقت موجود ہے جس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونا(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی قیمت تک پہنچ جائے، چاہے اس پر سال گزرا ہو یا نہ گزرا ہو اس پر صدقہ فطر نکالنا واجب ہے، یہ شخص اپنی اور اپنی نابالغ اولاد کی جانب سے صدقہ فطر ادا کرے گا، اور جس شخص کے پاس اتنا مال یا سامان موجود نہ ہو تو اس پر صدقہ فطر واجب نہیں ہوگا۔


دوسروں کی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا

مرد کے لیے صدقۂ فطر اپنی طرف سے بھی ادا کرنا واجب ہے، اپنی نابالغ اولاد کی طرف سے بھی، نابالغ اولاد اگر مال دار ہو تو ان کے مال سے ادا کرے اور اگر مال دار نہیں ہے تو اپنے مال سے ادا کرے۔ بالغ اولاد اگر مال دار ہے تو ان کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرنا باپ پر واجب نہیں، ہاں اگر باپ ازخود ان کی اجازت سے  ادا کردے گا تو صدقۂ فطر ادا ہوجائے گا۔


البتہ عورتوں کے لئے یہ حکم نہیں ہے یعنی عورت اگر مالدار ہو تو س سو صرف اپنی طرف سے صدقہ فطر ادا کرنا ہے اولاد یا کسی ور کی طرف سے اس کو صدقہ فطر ادا کرنا ضروری نہیں ہے۔


صدقہ فطر ادا کرنے کا وقت

صدقہ فطر عیدالفطر کے دن جس وقت فجر کا وقت آتا ہے (یعنی جب سحری کا وقت ختم ہوتاہے) اسی وقت  واجب ہوتا ہے، لہذا جو شخص قبل طلوع فجر مرجائے یا فقیر ہوجائے اسی طرح جو شخص بعد طلوع فجر اسلام لائے یا مال پائے اس پر صدقہ فطر واجب نہیں اور جو لڑکا یا لڑکی فجر طلوع ہونے سے پہلے پیدا ہو یا فجر طلوع ہونے سے پہلے اسلام لائے یا طلوع فجر کے بعد مرجائے یا طلوع فجر کے بعد فقیر ہوجائے اس پر صدقہ فطر واجب ہوگا۔


البتہ صدقہ فطر رمضان المبارک میں بھی ادا کرنا درست ہے، لیکن عید الفطر کے دن عید کی نماز سے پہلے پہلے صدقہ فطر ادا کرلینا افضل ہے، یہ بہت زیادہ فضیلت کی بات ہے، عید کی نماز سے پہلے ادا نہیں کیا تو عید کی نماز کے بعد ادا کرنا ہوگا، اور عید کے دن سے زیادہ تاخیر کرنا خلاف سنت اور مکروہ ہے، لیکن پھر بھی ادا کرنا ضروری ہوگا۔ 


صدقہ فطر کس کو دے سکتے ہیں

جس شخص کو زکاۃ دینا جائز ہے اس کو صدقہ فطر دینا بھی جائز ہے، لہذا اپنے اصول (والدین،  دادا، دادی، نانا، نانی وغیرہ) اور فروع (اولاد اور ان کی اولاد وغیرہ)کے علاوہ دیگر رشتہ دار ، عزیز و اقارب  جیسے بھائی بہن اور بھتیجے، بھانجے، وغیرہ اگر زکاۃ کے مستحق ہیں یعنی ان کی ملکیت میں  ضرورتِ اصلیہ سے زائد  نصاب زکوۃ کے برابر  رقم نہ ہو ، اور نہ ہی  اس  قدر ضرورت و استعمال سے زائد  سامان ہو کہ جس کی مالیت نصاب زکوۃ کے برابر بنتی ہے تو ان کو صدقہ فطر دینا جائز ہے۔ اور اگر عزیزواقارب میں کوئی مستحق نہ ہو تو  وہ افراد مستحق ہیں جن کے پاس ضرورت و استعمال سے زائد اتنا مال یا سامان موجود ہو جس کی مالیت نصاب زکوۃ (ساڑھے سات تولہ سونا(۸۷/٤٨ 87.48 گرام) اور ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) تک نہ پہنچے۔ ایسے افراد کو زکات اور صدقہ فطر دیاجاسکتا  ہے اور بہت سے لوگوں کا صدقہ فطر ایک ہی مستحق کو دینا جائز ہے اور متفرق مستحقین کو ایک ہی آدمی کا صدقۂ فطر بھی دینا جائز ہے۔


صدقہ فطر کی مقدار کیا ہے

گیہوں آٹا اور ستو نصف صاع برابر ( ١/۷٦۹) ایک کلوسات سو انہتر گرام ) ایک صاع کھجور ، چھوہارے اور کشمش برابر ( ۳/۵۳۸ ) تین کلو پانچواڑ میں گرام تفصیل کے لئے احسن الفتاوی٤۱٤/٤ سے دیکھیں )


صدقۂ فطر گندم  آٹا اور ستو کے حساب سے پونے دو کلو، اور کھجور، جو  یا کشمش کے حساب سے ساڑھے تین کلو ہے، لہذا صدقہ فطر میں بعینہ مذکورہ اجناس میں سے کوئی جنس دی جا رہی ہو تو ایسی  صورت میں مذکورہ بالا وزن کے اعتبار سے دینا شرعاً ضروری ہے، البتہ اگر صدقہ فطر نقدی کی صورت میں ادا کرنا مقصود ہو تو ایسی صورت میں ادائیگی کرنے والا جہاں موجود ہو وہاں کی قیمت کا اعتبار ہوگا، وہاں پر قیمت معلوم کرکے صدقۂ فطر ادا کریں۔


فتاوی شامی میں ہے۔

والمعتبر في الزكاة فقراء مكان المال وفي الوصية مكان الموصي وفي الفطرة مكان المؤدي عند محمد وهو الأصح، وأن رءوسهم تبع لرأسه۔

و في الرد

قوله مكان المؤدي أي لا مكان الرأس الذي يؤدي عنه قوله: وهو الأصح بل صرح في النهاية والعناية بأنه ظاهر الرواية، كما في الشرنبلالية، وهو المذهب كما في البحر؛ فكان أولى مما في الفتح من تصحيح قولهما باعتبار مكان المؤدى عنه۔ (فتاوی شامی ٣/٣٠٧)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ثم المعتبر في الزكاة مكان المال حتى لو كان هو في بلد، وماله في بلد آخر يفرق في موضع المال، وفي صدقة الفطر يعتبر مكانه لا مكان أولاده الصغار وعبيده في الصحيح، كذا في التبيين. وعليه الفتوى، كذا في المضمرات۔ (فتاوى هنديہ ١/١٩٠)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ومصرف هذه الصدقة ما هو مصرف الزكاة كذا في الخلاصة۔ (فتاوى الهنديہ ١/٢١٣) 


فتاوی شامی میں ہے

(وجاز دفع كل شخص فطرته إلى) مسكين أو (مساكين على) ما عليه الأكثر، وبه جزم في الولوالجية والخانية والبدائع والمحيط، وتبعهم الزيلعي في الظهار من غير ذكر خلاف، وصححه في البرهان، فكان هو (المذهب) كتفريق الزكاة، والأمر في حديث "أغنوهم" للندب؛ فيفيد الأولوية، ولذا قال في الظهيرية: لايكره التأخير أي تحريمًا كما جاز دفع صدقة جماعة إلى مسكين واحد بلا خلاف (فتاوی شامی ٣/٣٢٤)


فتاوی شامی میں ہے۔

والفطر لفظ إسلامي والفطرة مولد، بل قيل لحن، وأمر بها في السنة التي فرض فيها رمضان قبل الزكاة، وكان عليه الصلاة والسلام يخطب قبل الفطر بيومين يأمر بإخراجها.ذكره الشمني (تجب) وحديث فرض رسول الله عليه الصلاة والسلام زكاة الفطر معناه قدر للاجماع على أن منكرها لا يكفر (موسعا في العمر) عند أصحابنا وهو الصحيح.

وقیل مضیفا الفطر عينا) فبعده يكون قضاء، واختاره الكمال في تحريره ورجحه في تنوير البصائر (على كل) حر (مسلم) ولو صغيرا مجنونا، حتى لو لم يخرجها وليهما وجب الاداء بعد البلوغ (ذي نصاب فاضل عن حاجته الاصلية) كدينه وحوائج عياله (وإن لم ينم) كما مر (وبه) أي بهذا النصاب (تحرم الصدقة) كما مر، وتجب الاضحية ونفقة المحارم على الراجح (و) إنما لم يشترط النمو لان (وجوبها بقدرة ممكنة) هي ما يجب بمجرد التمكن من الفعل فلا يشترط بقاؤها لبقاء الوجوب لانها شرط محض (لا) بقدرة (ميسرة) هي ما يجب بعد التمكن بصفة اليسر، فغيرته من العسر إلى اليسر فيشترط بقاؤها لانها شرط في معنى العلة۔ (فتاوی شامی ٣/٢١٠)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: