بدھ، 30 مارچ، 2022

زکوۃ کس کو نہیں دے سکتے؟ سوال نمبر ٢٦٢

سوال

وہ کونسے حضرات سے جن کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے؟ مدلل واضح فرمائیں۔


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالی


کل پانچ قسم کے مصارف ایسے ہیں جن میں زکوۃ صرف کرنا جائز نہیں ہے۔


(١) اصول 

والدین داد  دادی پڑدادا پڑدادی ، نانا نانی پڑنانا پڑ نانی کو اوپر تک کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے۔


(٢) فروع

بیٹا، بیٹی، پوتا، پوتی، نواسہ، نواسی وغیرہ نیچے تک اپنی اولاد کو زکوۃ دینا جائز نہیں۔


(٣) صاحب نصاب شخص کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، یعنی مسلمان کے پاس اس کی بنیادی ضرورت و استعمال (یعنی رہنے کا مکان گھریلو برتن، کپڑے وغیرہ) سے زائد، نصاب کے بقدر (جس کی مالیت ساڑھے سات تولہ سونا (۸۷/٤٨ 87.48 گرام) یا ساڑھے باون تولہ چاندی(٦١٢/٣٦ 612.36 گرام) کی مالیت کے بقدر ہو) تو چاہے اس شخص پر مال نامی کے نہ ہونے کی وجہ سے زکوۃ فرض تو نہیں ہے لیکن نصاب کے مالک ہونے کی وجہ سے وہ زکوۃ لے بھی نہیں سکتا۔


(٤) میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو زکوۃ نہیں دے سکتے، یعنی میاں بیوی آپس میں ایک دوسرے کو  اپنے مال کی زکاۃ نہیں دے سکتے، ہاں اگر شوہر مستحقِ زکاۃ ہو تو وہ کسی دوسرے شخص سے زکاۃ کی رقم وصول کر سکتا ہے۔


(۵) بنو ہاشم سید خاندان یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کو زکوۃ دینا جائز نہیں ہے، اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد مبارک ہے: یہ صدقات (زکاۃ اور صدقاتِ واجبہ) لوگوں کے مالوں کا میل کچیل ہیں، ان کے ذریعہ لوگوں کے نفوس اور اموال پاک ہوتے ہیں اور بلاشبہ یہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیے اور آلِ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کے لیےحلال نہیں ہے۔


جن لوگوں کا سلسلہِ نسب حضرت عباس، حضرت جعفر، حضرت عقیل، حضرت علی یا حضرت حارث بن عبدالمطلب رضی اللہ عنہم تک تحقیقی طور پر پہنچتا ہے اور ان کے نسب نامہ میں کوئی شک وشبہ نہیں ہے تو وہ سید کہلاتے ہیں، آل رسول کی نسبت سے ان کا احترام کرنا ضروری ہے۔


اگر آل رسول غریب اور محتاج ہے تو صاحبِ حیثیت مال داروں پر لازم ہے کہ وہ سادات کی امداد زکوۃ اور صدقاتِ واجبہ کے علاوہ رقم سے کریں اور ان کو مصیبت اور تکلیف سے نجات دلائیں اور یہ بڑا اجر وثواب کا کام ہے اور حضور اکرم کے ساتھ محبت کی دلیل ہے اور ان شاء اللہ تعالیٰ اس عمل کے ذریعہ آپ  کی شفاعت کی قوی امید کی جاسکتی ہے۔


ہدایہ میں ہے۔

ولا يدفع المزکی زکوۃ ماله الى ابيه وجده وان علا ولا الى ولده وان سفل لان مـنـافـع الامـلاك بيـنـهـم مـتـصـلـة فـلا يـتـحـقـق الـتـمـليـك عـلـى الـكـمـال۔ (هدايہ ١/٢٢٣)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولا یدفع إلی أصلہ وإن علا وفرعہ وإن سفل، کذا في الکافي، ولا یدفع إلی امرأتہ للاشتراک في المنافع ولا تدفع المرأۃ إلی زوجہا عند أبي حنیفۃ رحمہ اللّٰہ تعالیٰ۔

(فتاوی عالمگیری  ١/١٨٩ )


فتاوی شامی میں ہے۔

قال اللہ تعالی: إنما الصدقت للفقراء والمساکین الآیة(سورہ توبہ آیت:۶۰)، ولا إلی من بینھما ولاد … أو بینھما زوجیة (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ۳: ۲۹۴، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی عالمگیری میں ہے۔

ولايدفع إلى أصله، وإن علا، وفرعه، وإن سفل كذا في الكافي۔ (فتاوی عالمگیری ١/١٨٨ )


فتاوی شامی میں ہے۔

إلی من غني یملک قدر نصاب فارغ عن حاجتہ الأصلیة من أي مال کان الخ (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، باب المصرف، ٣/ ٢٩٦ ٢٩٥ ط: مکتبة زکریا دیوبند)


فتاوی شامی میں ہے۔

قوله: (فلا يدفع لاصله) أي وإن علا، وفرعه وإن سفل، وكذا لزوجته وزوجها وعبده ومكاتبه، لأنه بالدفع إليهم لم تنقطع المنفعة عن المملك: أي المزكي من كل وجه۔ (شامی ٣/١٧٣)


البحر الرائق میں ہے۔

ولا یدفع إلی بنی ہاشم وموالہیم) أي لا یجوز الدفع لہم لحدیث البخاري نحن أہل بیت لا تحل لنا الصدقۃ ولحدیث أبي داؤد مولی القوم من أنفسہم وأنا لاتحل لنا الصدقۃ أطلق في بني ہاشم۔ (البحر الرائق ٢/٢٤٦ کراچی)۔ واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: