سوال
علی الاعلان صدقہ کر نا جائز ہے یا نہیں دلیل کے ساتھ بیان کر نا نہایت شکریہ ہو گا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
اسلام نے صاحب ثروت اشخاص پرخداتعالیٰ کے عطاء کردہ مال سے معاشرے کے پسماندہ طبقات کی مدد و معاونت کو لازم کیا ہے، جن کا مقصد غرباء کی مدد کے ساتھ معاشرے میں گردشِ دولت میں اضافہ کرنا ہے۔ مزید یہ کہ صدقات و خیرات اللہ تعالیٰ کی رضا کا بھی ذریعہ ہیں۔ قرآنِ مجید میں اس کو ان الفاظ میں بیان کیا ہے۔
الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّهِ ثُمَّ لاَ يُتْبِعُونَ مَا أَنفَقُواْ مَنًّا وَلاَ أَذًى لَّهُمْ أَجْرُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ وَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ۔
ترجمہ جو لوگ ﷲ کی راہ میں اپنے مال خرچ کرتے ہیں پھر اپنے خرچ کئے ہوئے کے پیچھے نہ احسان جتلاتے ہیں اور نہ اذیت دیتے ہیں ان کے لئے ان کے رب کے پاس ان کا اجر ہے اور (روزِ قیامت) ان پر نہ کوئی خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
لیکن اکثر و بیشتر اعمال میں یہی قاعدہ ہے کہ وہ خفیہ اور اعلانیہ دونوں طرح جائز ہیں لیکن ریاکاری کیلئے اعلانیہ کرنا درست نہیں ہے اور دوسروں کی ترغیب کیلئے کرنا ثواب ہے۔
اس لئے صدقہ خواہ فرض ہو یا نفل جب اخلاص کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لئے دیا جائے اور ریا سے پاک ہو تو خواہ ظاہر کرکے دیں یا چھپا کر دونوں بہتر ہیں۔
قرآن کریم میں اس کو اس طرح سے بیان کیاہے
اَلَّذِيۡنَ يُنۡفِقُوۡنَ اَمۡوَالَهُمۡ بِالَّيۡلِ وَالنَّهَارِ سِرًّا وَّعَلَانِيَةً فَلَهُمۡ اَجۡرُهُمۡ عِنۡدَ رَبِّهِمۡۚ وَلَا خَوۡفٌ عَلَيۡهِمۡ وَلَا هُمۡ يَحۡزَنُوۡنَ ۞البقرة آیت نمبر ٢٧٤
ترجمہ: جو لوگ خرچ کرتے ہیں اپنے مال اللہ کی راہ میں رات کو اور دن کو چھپا کر اور ظاہر میں تو ان کے لئے ثواب ہے ان کا اپنے رب کے پاس اور نہ ڈر ہے ان پر اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔
دوسری آیت میں ہے۔
اِنۡ تُبۡدُوا الصَّدَقٰتِ فَنِعِمَّا هِىَۚ وَاِنۡ تُخۡفُوۡهَا وَ تُؤۡتُوۡهَا الۡفُقَرَآءَ فَهُوَ خَيۡرٌ لَّكُمۡؕ وَيُكَفِّرُ عَنۡكُمۡ مِّنۡ سَيِّاٰتِكُمۡؕ وَاللّٰهُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِيۡرٌ ۞البقرة آیت نمبر ٢٧١
ترجمہ: اگر ظاہر کرکے دو خیرات تو کیا اچھی بات ہے، اور اگر اس کو چھپاؤ اور فقیروں کو پہنچاؤ تو وہ بہتر ہے تمہارے حق میں اور دور کرے گا کچھ گناہ تمہارے اور اللہ تمہارے کاموں سے خوب خبردار ہے
البتہ قبولیت کا معیار قرآن کریم نے خلوص و للہیت کو قرار دیا ہے
وَالَّذِيۡنَ يُؤۡتُوۡنَ مَاۤ اٰتَوْا وَّ قُلُوۡبُهُمۡ وَجِلَةٌ اَنَّهُمۡ اِلٰى رَبِّهِمۡ رٰجِعُوۡنَ ۞اُولٰٓئِكَ يُسَارِعُوۡنَ فِىۡ الۡخَيۡـرٰتِ وَهُمۡ لَهَا سٰبِقُوۡنَ ۞ سورہ المؤمنون ٦١\٦٢
ترجمہ: اور وہ جو عمل بھی کرتے ہیں، اسے کرتے وقت ان کے دل اس بات سے سہمے ہوتے ہیں کہ انہیں اپنے پروردگار کے پاس واپس جانا ہے۔
وہ ہیں جو بھلائیاں حاصل کرنے میں جلدی دکھا رہے ہیں، اور وہ ہیں جو ان کی طرف تیزی سے آگے بڑھ رہے ہیں۔
اسی طرح عمدة القاري شرح صحيح البخاري (٨/ ٢٨٤)
میں بھی دونوں طرح صدقہ کرنا درست فرمایا ہے، نیت صادقہ کی شرط کے ساتھ لیکن افضل سر ہے
"{إِن تبدوا الصَّدقَات فَنعما هِيَ} (الْبَقَرَة: ١٧٢) . أَي: إِن أظهرتموا الصَّدَقَة فَنعم شَيْء هِيَ. وَقيل: فنعمت الْخصْلَة هِيَ، نزلت لما سَأَلُوا النَّبِي صلى الله عَلَيْهِ وَسلم: صَدَقَة السِّرّ أفضل أم الْجَهْل؟ قَالَ الطَّبَرِيّ: وَرُوِيَ عَن ابْن عَبَّاس أَن قَوْله تَعَالَى: {إِن تبدوا الصَّدقَات فَنعما هِيَ} (الْبَقَرَة: ١٧٢) . إِلَى قَوْله تَعَالَى: {وَلَا خوف عَلَيْهِم وَلَا هم يَحْزَنُونَ} (الْبَقَرَة: ٤٧٢) . كَانَ هَذَا يعْمل بِهِ قبل أَن تنزل بَرَاءَة، فَلَمَّا نزلت بَرَاءَة بفرائض الصَّدقَات أقربت الصَّدقَات إِلَيْهَا. وَعَن قَتَادَة: {إِن تبدوا الصَّدقَات فَنعما هِيَ وَإِن تخفوها} (الْبَقَرَة: ١٧٢) . كل مَقْبُول إِذا كَانَت النِّيَّة صَادِقَة، وَصدقَة السِّرّ أفضل. وَذكر لنا أَن الصَّدَقَة تطفىء الْخَطِيئَة كَمَا يطفىء المَاء النَّار. وَقَالَهُ أَيْضا الرّبيع، وَعَن ابْن عَبَّاس: جعل الله صَدَقَة السِّرّ فِي التَّطَوُّع تفضل علانيتها يُقَال: بسبعين ضعفا، وَجعل صَدَقَة الْفَرِيضَة علانيتها تفضل من سرها يُقَال بِخَمْسَة وَعشْرين ضعفا، وَكَذَلِكَ جَمِيع الْفَرَائِض والنوافل فِي الْأَشْيَاء كلهَا. وَقَالَ سُفْيَان: هُوَ سوى الزَّكَاة".
عام حالات میں نفلی صدقہ مخفی طور پر کرنا زیادہ افضل ہے، احادیثِ مبارکہ میں مخفی صدقہ کرنے کی بہت زیادہ فضیلت وارد ہوئی ہے،
"عن بهز بن حكيم، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إن صدقة السر تطفئ غضب الرب تبارك وتعالى»".المعجم الأوسط (٣/ ٣٧٨)
"وفي هذا الحديث فضل صدقة السر، قال العلماء: وهذا في صدقة التطوع فالسر فيها أفضل؛ لأنه أقرب إلى الإخلاص وأبعد من الرياء، وأما الزكاة الواجبة فإعلانها أفضل". شرح النووي على مسلم (٧/ ١٢٢)
البتہ صدقاتِ واجبہ، جیسے زکاۃ، فطرانہ وغیرہ ظاہر کرکے دینے کی اجازت ہے، اور دوسروں کی ترغیب کیلئے ہو تو فضل ہے۔ اسی ترغیب کے تحت غزوہ تبوک میں صحابہ نے صدقہ وخیرات کرنے میں ایک دوسرے سے آگے نکل جانے کی کوشش کی۔
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں