سوال
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
مسٸلہ یہ ہیکہ عقیقہ کاگوشت پکاکرتقسیم کرناافضل ہے، یاکچا تقسیم کرنا افضل ہے، بیان فرماٸیں۔
سائل: محمد ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
عقیقہ سنت ہے، اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے نواسوں حضرت حسن اور حضرت حسین رضی اللہ عنہما کی طرف سے عقیقہ فرمایا تھا۔ عقیقہ کرنا ثابت ہے، لیکن اس کا گوشت کچا اور پکا دونوں طرح تقسیم کرسکتے ہیں، پکاکر لوگوں کو کھلا بھی سکتے ہیں اس میں افضلیت کا کوئی مسئلہ نہیں ہے اپنی ثواب دید پر محمول ہے۔
اور عقیقہ کے جانور کا سارا گوشت تقسیم کرنا، یا سارا گوشت خود رکھ لینا، یا سارا گوشت پکا کر کھلانا یہ سب صورتیں جائز ہیں۔ عقیقہ میں بھی قربانی کی طرح مستحب یہ ہے کہ عقیقہ کے جانور کے گوشت کے قربانی کے جانور کی طرح تین حصے کیے جائیں: ایک حصہ قریبی رشتہ داروں کے لیے، ایک حصہ فقراء ومحتاجوں کے لیے اور ایک حصہ گھر کے لیے رکھے۔ یہ بھی کیا جاسکتا ہے کہ ایک حصہ فقراء و محتاجوں کو دینے کے بعد دو حصوں کا کھانا پکا کر رشتہ داروں کی ضیافت کرلی جائے، اس میں گھر والے اور رشتہ دار شریک ہوجائیں گے، اور استحباب پر عمل بھی ہوجائے گا۔
بدائع الصنائع میں ہے۔
والأفضل أن يتصدق بالثلث ويتخذ الثلث ضيافة لأقاربه وأصدقائه ويدخر الثلث لقوله تعالى {فكلوا منها وأطعموا القانع والمعتر} وقوله - عز شأنه - {فكلوا منها وأطعموا البائس الفقير} وقول النبي عليه الصلاة والسلام: «كنت نهيتكم عن لحوم الأضاحي فكلوا منها وادخروا» فثبت بمجموع الكتاب العزيز والسنة أن المستحب ما قلنا ولأنه يوم ضيافة الله عز وجل بلحوم القرابين فيندب إشراك الكل فيها ويطعم الفقير والغني جميعا لكون الكل أضياف الله تعالى عز شأنه في هذه الأيام وله أن يهبه منهما جميعاً، ولو تصدق بالكل جاز ولو حبس الكل لنفسه جاز؛ لأن القربة في الإراقة۔ ( بدایع الصنائع ١/٨١) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں