سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مفتی صاحب ایک مدرسے میں دو لڑکے ہیں جن کا آکسیڈنٹ ہو چکا ہے اب ان میں سے ایک کی ٹانگ ٹوٹ گئی تھی لیکن اب کافی وقت کے بعد اتنا بہتر ہے کہ وہ لاٹھی کے سہارے سے چل سکتا ہے لیکن اس حالت میں بھی وہ سجدہ پر قادر نہیں ہے
تو کیا وہ اپنے کمرے میں ہی نماز پڑھ سکتا ہے اور جو دوسرا ہے وہ بھی سجدہ پر قادر نہیں ہے اب کیا دونوں اسی کمرے میں رہتے ہوئے با جماعت نماز ادا کر سکتے ہیں یا نہیں
سائل: محمد عبداللہ عرف حذیفہ کراچی پاکستان
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا واجب کے درجہ میں ہے، معتبر عذر کے بغیر جماعت چھوڑنا جائز نہیں، مسؤلہ صورت میں اگر کوئی دوسرا آدمی میسر ہو جو مذکورہ معذورین کو مسجد لےکر جانے اور واپس لے کر آنے کے لیے تیار ہو تو اس معذور کو چاہیے کہ اس کی مدد سے مسجد جاکر نماز جماعت سے پڑھے، اور اگر اس صورت میں بھی پریشانی ہوتو پھر وہ کمرے میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔
کچھ اعذار جس سے جماعت ساقط ہوجاتی ہے۔
(الف) ستر چھپانے کے بقدر کپڑا موجود نہ ہو۔
(ب) بہت تیز بارش ہورہی ہو اس صورت میں اگرچہ مسجد نہ جانا جائز ہے مگر بہتر یہی ہے کہ جماعت میں شریک ہوکر نماز پڑھے۔
(ج) سخت سردی ہوکہ باہر نکلنے اور مسجد تک جانے میں کسی بیماری کے پیدا ہونے یا بڑھ جانے کا خوف ہو۔
(د) مسجد تک جانے میں مال واسباب کے چوری ہوجانے کا خوف ہو۔
(ہ) مسجد جانے میں کسی دشمن کے مل جانے کا خوف ہو۔
(ز) سخت تاریکی ہو اور راستہ دکھائی نہ دیتا ہو، یا بہت سخت آندھی چلتی ہو۔
(س) کسی مریض کی تیمار داری کے لیے رکنا ضروری ہو کہ چھوڑکر جانے سے مریض کی جان کا خطرہ ہو۔ وغیرہ ان وجوہات کی بنا پر جماعت میں شامل نہ ہونے کی گنجائش ہے۔
(ش) اپاہج ہونا یعنی لنگڑا لولا ہونا جو مسجد تک نہ جا سکے۔
فلا تجب على مريض ومقعد وزمن ومقطوع يد ورجل من خلاف) أو رجل فقط ، ذكره الحدادي (ومفلوج وشيخ كبير عاجز وأعمى ) وإن وجد قائدا ( ولا على من حال بينه وبينها مطر وطين [ ص: 556 ] وبرد شديد وظلمة كذلك ) وريح ليلا لا نهارا ، وخوف على ماله ، أو من غريم أو ظالم ، أو مدافعة أحد الأخبثين ، وإرادة سفر ، وقيامه بمريض ، وحضور طعام ( تتوقه ) نفسه ذكره الحدادي ، وكذا اشتغاله بالفقه لا بغيره ، كذا جزم به الباقاني تبعا للبهنسي : أي إلا إذا واظب تكاسلا فلا يعذر ، ويعزر ولو بأخذ المال يعني بحبسه عنه مدة ولا تقبل شهادته إلا بتأويل بدعة الإمام أو عدم مراعاته۔ (شامی ٢/٢٩٢:٩٣)
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں