سوال
روضہ رسول کی جالی کو چومنا کیسا ہے۔
سائل: محمد قاسم گودھروی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخرت کی یاد دہانی کے لیے وقتاً فوقتاً قبرستان جانے کی ترغیب دی ہے، لیکن تقبیل تلمیس قبر کی نہ کہیں ترغیب ہے نہ ہی اس کا ثبوت ہے۔
جہاں تک روض رسول کے بوسہ دینے کی بات ہے۔ تلاش بسیار کے بعد بھی کسی کتاب میں نہ صحابہ سے یہ عمل ملا نہ تابعین کے حوالے سے ملا اور نہ ہی اکابرین دیوبند کا عمل ملا لہذا یہ مستحسن ہوتا تو کم سے کم تابعین یا اکابرین علمائے دیوبند سے تو ضرور ثابت ہوتا اس سے اجتناب ہی بہتر ہے۔
البتہ عالمگیری میں والدین کی قبروں کی تقبیل کے سلسلہ میں جواز کی طرف اشارہ کیا ہے بشرطیکہ وہاں خرافات سے نہ ہو۔
قال برهان الترجماني: لا نعرف وضع اليد على المقابر سنةً ولا مستحسنًا ولا نرى به بأسًا، وقال عين الأئمة الكرابيسي: هكذا وجدناه من غير نكير من السلف، وقال شمس الأئمة المكي: بدعة، كذا في القنية.ولا يمسح القبر ولا يقبله فإن ذلك من عادة النصارى ولا بأس بتقبيل قبر والديه كذا في الغرائب.(الفتاوى الهندية ط، دارالکتب العلمیہ ٥/٤٣٠)
اسی طرح اگر روضۂ رسول کو فرط محبت میں کسی نے چوم لیا بوسہ دے دیا اور وہ بوسا دیناکسی غلط عقیدہ سے نہ ہو تو وہ گنہگار نہیں ہوگا لیکن اجتناب ہی بہترہے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں