ہفتہ، 29 جنوری، 2022

صدقہ کے پیسے جمع کرکے اس میں سے استعمال کرنا

 سوال

اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ‎۔

میں ھر مہینے کچھ پیسے صدقہ کے لئے نکال کے رکھتا ہوں اگر کبھی اپنے پاس پیسے نہ ہو اور سخت ضرورت ھو کیا جو پیسے صدقہ کے لۓ رکھتا ھوں وہ پیسے اپنے استعمال میں لا سکتاہوں  یا نہیں۔

سائل: محمد فیروز الہ باد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


زکوة یا صدقے کا پیسہ جب تک کسی مستحق یا اس کے ولی یا وکیل کو نہ دیدیا جائے، دینے والے کی ملکیت سے خارج نہیں ہوتا، لہٰذا اگر آپ نے صدقے کی نیت سے کچھ پیسے الگ نکال کر رکھ دئے تو وہ آپ کی ملکیت ہی میں ہے اگر کبھی اپنے پاس پیسے نہ ہو اور سخت ضرورت کی وجہ سے رکھے ہوئے صدقہ کے پیسے اپنے استعمال میں لے آئیے تو اس میں شرعاً کچھ مضائقہ نہیں۔


البتہ اگر وہ زکوہ کے پیسے ہیں یا دوسرے صدقات واجبات ہیں تو جتنی مقدار استعمال کیا ہے وہ پھر سے حساب کرکے وقت پر دینا لازمی ہوگا۔

شامی میں ہے۔

ولا یخرج عن العھدة بالعزل؛ بل بالأداء للفقراء ۔۔۔۔۔۔ قولہ: ”ولا یخرج عن العھدة بالعزل“: فلو ضاعت لا تسقط عنہ الزکاة ولو مات کانت میراثاً عنہ بخلاف ما إذا ضاعت في ید الساعي؛ لأن یدہ کید الفقراء، بحر عن المحیط (الدر المختار مع رد المحتار، کتاب الزکاة، ۳: ۱۸۹، ط: مکتبة زکریا دیوبند)


البحر الرائق میں ہے۔

"وقيد بالزكاة؛ لأن النفل يجوز للغني كما للهاشمي، وأما بقية الصدقات المفروضة والواجبة كالعشر والكفارات والنذور وصدقة الفطر فلايجوز صرفها للغني؛ لعموم قوله عليه الصلاة والسلام: «لاتحل صدقة لغني» خرج النفل منها؛ لأن الصدقة على الغني هبة، كذا في البدائع۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق۔ ٢/٢٦٣) واللہ اعلم بالصواب۔


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: