سوال
اگر مسبوق امام کے سلام پھیرنے کے ساتھ دھوکہ سے السلام کہہ دے پھر یاد آنے پر چھٹی ہوئی رکعت کیلئے کھڑا ہو جائے تو کیا اس پر سجدہ سہو واجب ہے
سائل: محمد موسی اتراکھنڈ
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
مسبوق کے سلام پھیر نے کی دوصورتیں ہے
(١) مسبوق نے جان بوجھ کرسلام پھیراہو
یعنی یہ جانتے ہوئے سلام پھیردیا کہ ابھی میری ایک یا اس سے زائد رکعتیں باقی ہیں تو چوں کہ یہ درمیان نماز میں جان بوجھ کر سلام پھیرنا ہے اس لیے اس سلام کی وجہ سے اس کی نماز فاسد ہوجائے گی خواہ اس نے امام سے پہلے سلام پھیرا ہو یا امام کے ساتھ ساتھ یا امام کے بعد سلام پھیراہو۔
(٢) مسبوق نے جان بوجھ کرسلام نہ پھیراہو
یعنی اس کو یاد نہیں ہے کہ اس کی رکعت چھوٹ گئی ہے اور سلام پھیر دیا ہو تو اس کی تین صورتیں ہے
(١) امام سے پہلے سلام پھیر دی ہو
(٢) امام کے ساتھ ساتھ سلام پھیری ہو
پہلی اور دوسری صورت میں مسبوق نے امام سے پہلے لفظ السلام کہہ دیا یا امام کے ساتھ ساتھ کہا تو چوں کہ وہ اس وقت مقتدی ہے اس لیے سہو کی صورت میں اس سلام کی وجہ سے اس پر کوئی سجدہ سہو واجب نہ ہوگا،
(٣) امام کی سلام کے بعد سلام پھیراہو
اس صوت میں مسبوق اگر امام کے سلام پھیرنے کے بعد (جیساکہ عموماً ہوتاہے) بھول سے سلام پھیر لے، لیکن کوئی ایسا عمل نہ کرے جس سے نماز فاسد ہوجاتی ہو تو آخر میں سجدہ سہو واجب ہوگا اور نماز ہوجائے گی،نماز توڑ کر دوبارہ دوہرانے کی ضرورت نہیں ہے
لیکن عام طور پر مقتدی اور مسبوق عادتاً امام کے سلام کے بعد ہی سلام پھیرتا ہےاورسلام میں تاخیر ہوہی ہوجاتی ہے عجلت نہیں ہو پاتی اس لئے بہتر ہے کہ ہرحال میں سجدئہ سہو کر لے۔
ماخوذ از شامی
( ولو سلـم ساهياً ) قيد به لأنه لو سلم مع الإمام على ظن أن عليه السلام معه فهو سلام عمد فتفسد كما في البحر عن الظهيرية . قوله : ( لزمه السهو ) لأنه منفرد في هذه الحالة ح . قوله : ( وإلا لا ) ای وان سلم معہ اوقبلہ لا یلزمہ لا نہ مقتدفی ھاتین الحالتینح وفی شرحٔ المنیۃ عن المحیط ان سلم فی الاول مقارناً لسلا مہ فلا سہو علیہ لانہ مقتد بہ وبعدہ یلزم لانہ منفرد اھ ثم قال : فعلى هذا يراد بالمعية حقيقتها ، وهو نادر لأنه مقتد الوقوع ا هـ
قلت: یشیر إلی أن الغالب لزوم السجود؛ لأن الأغلب عدم المعیة، وھذا مما یغفل کثیر من الناس فلیتنبہ لہ (کتاب الصلاة، آخر باب الإمامة ، ٢/٣٥٠ ط: مکتبة زکریا دیوبند)۔
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں