سوال
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ۔
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام شرح دین متین امام صاحب نے نماز میں رویدا کی جگہ رُأیدا راء کے پیش اور ہمزہ مفتوحہ کے ساتھ پڑھایا تو نماز کا کیا حکم ہے جواب دیکر شکریہ کا موقع عنایت فرمائیں۔
سائل: سبیل قاسمی ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
تلفظ کی تبدیلی یا الفاظ کی کمی بیشی کی وجہ سے معنیٰ تبدیل نہ ہو یا معنیٰ تو تبدیل ہو لیکن تغیر فاحش نہ ہو تو اس سے نماز فاسد نہیں ہوگی، اس لئے کہ الفاظ کے تلفظ کی مطلق کمی یا معنی کی مطلق تبدیلی سے نماز فاسد نہیں ہوتی، اگر قرآن کی تلاوت میں اس طرح کی غلطی ہوجائے کہ معنی میں تغیر فاحش ہوجائے، یعنی: ایسے معنی پیدا ہوجائیں، جن کا اعتقاد کفر ہوتا ہے، تو نماز کے فساد کا حکم لگایا جاتا ہے، اسی طرح اگر غلط پڑھ کر دوبارہ صحیح پڑھ لیا تو بھی نماز صحیح ہوجائے گی۔
صورتِ مسؤلہ میں رویدا کی جگہ رُأیدا راء کے پیش اور ہمزہ مفتوحہ کے ساتھ پڑھاہے لیکن یہ ایسی غلطی نہیں ہے جس سے نماز فاسد ہوجائے، البتہ اس کی کوشش کریں کہ ہرحرف کو صحیح طریقہ سے ادا کریں،
إمداد المفتین میں ہے۔
قال في شرح المنیة الکبیر القاعدة عند المتقدمین أن ما غیره تغیراً یکون اعتقاده کفراً تفسد في جمیع ذلک سواء کان في القرآن أو لم یکن إلا ما کان من تبدیل الجمل مفصولاً بوقف تام، ثم قال بعد ذلک: فالأولی الأخذ بقول المتقدمین۔ (إمداد المفتین، ص ۳۰۳)
عالمگیری میں ہے۔
ومنها: ذکر کلمة مکان کلمة علی وجه البدل إن کانت الکلمة التي قرأها مکان کلمة یقرب معناها وهي في القرآن لاتفسد صلاته، نحو إن قرأ مکان العلیم الحکیم وإن کان في القرآن، ولکن لاتتقاربان في المعنی نحو إن قرأ:وعداً علینا إنا کنا غافلین مکان فاعلین ونحوه مما لو اعتقده یکفر تفسد عند عامة مشایخنا،وهو الصحیح من مذهب أبي یوسف رحمه الله تعالی، هکذا في الخلاصة۔ (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۰،، ط: المطبعة الکبری الأمیریة، بولاق، مصر)
عالمگیری میں ہے۔
ذکر في الفوائد: لو قرأ في الصلاة بخطإفاحش ثم رجع وقرأ صحیحاً قال: عندي صلاته جائزة (الفتاوی الهندیة، ۱: ۸۲ ) واللہ اعلم بالصواب۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں