سوال
السلام علیکم ورحمت اللہ وبرکاتہ
آنکھوں کے موتیوں کے آپریشن کی وجہ سے ڈاکٹر نے آنکھوں کو پانی سے محفوظ رکھنے کو کہا ہے تو ایسا شخص غسل واجب کیسے ادا کریں
سائل: محبوب خان الحسنی مانگرول گجرات
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
صورتِ مسئولہ میں اگر وضو یا غسل میں آنکھ کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو اور ماہر تجربہ کار ڈاکٹر نے آنکھ کے آپریشن کے بعد آنکھ میں پانی لگنے کو مضر بتایا ہے، تو ایسی صورت میں اس جگہ کوئی چیز باندھ دی جائے یا کوئی ایسی تدبیر کرلی جائے جس سے پانی نہ پہنچے، اور زخم والے حصے پر گیلے ہاتھ سے صرف مسح کرلیا جائے، اور اگر آنکھ پر مسح بھی مضر ہو تو مسح بھی چھوڑ دیا جائے۔
اور سر اس طریقے پر جھکاکر دھوئیں کہ چہرے پر پانی نہ پڑے سارا پانی نیچے زمین پر گرجائے اور ہاتھ بھگوکر اچھی طرح جھاڑلیں پھر چہرہ کا مسح کرلیں اور جسم کے باقی حصے پر پانی پہنچالیں۔
اور اگر مذکورہ طریقے پر سر کا دھونا ممکن نہ ہو چہرہ اور آنکھ پر پانی پہنچ جانے کا ڈر ہو تو پھر سر کا بھی مسح کرلیں یعنی ہاتھ بھگوکر پورے سر، کان، پیشانی اور چہرہ پر پھیر لیں۔
البحر الرائق میں ہے۔
(قوله: أو لمرض) يعني يجوز التيمم للمرض وأطلقه، و هو مقيد بما ذكره في الكافي من قوله بأن يخاف اشتداد مرضه لو استعمل الماء فعلم أن اليسير منه لايبيح التيمم، و هو قول جمهور العلماء إلا ما حكاه النووي عن بعض المالكية، و هو مردود بأنه رخصة أبيحت للضرورة و دفع الحرج، و هو إنما يتحقق عند خوف الاشتداد و الامتداد و لا فرق عندنا بين أن يشتد بالتحرك كالمبطون أو بالاستعمال كالجدري أو كأن لايجد من يوضئه و لايقدر بنفسه اتفاقًا۔ (البحر الرائق شرح كنز الدقائق ومنحة الخالق وتكملة الطوري ١/١٤٧)
شامیں میں ہے۔
في أعضائه شقاق غسله إن قدر وإلا مسحه وإلا تركه ولو بيده، و لايقدر على الماء تيمم، و لو قطع من المرفق غسل محل القطع.
(قوله: وإلا تركه) أي وإن لم يمسحه بأن لم يقدر على المسح تركه. (قوله: ولا يقدر على الماء) أي على استعماله لمانع في اليد الأخرى، ولا يقدر على وضع وجهه ورأسه في الماء۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين ١/٢١٧)
شامی میں دوسری جگہ ہے۔
تیمم لو کان أکثرہ أی أکثر أعضاء الوضوء عددا وفی الغسل مساحة مجروحا أو بہ جدری اعتبارا للأکثر وبعکسہ یغسل الصحیح ویمسح الجریح․ وقال العلامة الشامي تحتہ: إذا کان یمکن غسل الصحیح بدون إصابة الجریح وإلا تیمم، فلو کانت الجراحة بظہرہ مثلاً، وإذا صبّ الماء سال علیہا یکون ما فوقہا في حکمہا فیضم إلیہا کما بحثہ الشرنبلالي في الإمداد (الدر المختار مع رد المحتار: ۱/ ۴۳۰، ط: زکریا) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں