سوال
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ ایک مسجد ٤٤ سال سے این ایچ کے برابر میں ہے سروس روڈ کےلیے ١٠ فٹ این ایچ والے کو درکار ہے اس کے بعد ٤٢ فٹ جگہ بچتی ہے اب واقف کے ورثادوسری جگہ اپنی تین کٹھہ زمین دیکر مسجد منتقل کرنا چاہتے ہیں جب کہ اکثر لوگ بچی ہوٸی جگہ پر ہی مسجد کے حق میں ہیں مدلل ومفصل جواب دیں نیز اماماحمد اور امام شافعی کے مسالک کی وضاحت فرماٸیں۔ کیاحکم ہے بیان فرماٸیں۔
سائل: محمود عالم ہریدوار
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
خلاصہ
جواب کافی تفصیلی ہے اس لئے پہلے پیش خدمت ہے۔
شرعی نقطۂ نظر سے ایک بارجو جگہ مسجدِشرعی بن جائے وہ قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے،
واقف نے جیسے ہی اپنی زمین مسجد کے لیے وقف کردی، تو وہ زمین اس واقف کی ملکیت سے نکل کر اللہ تعالی کی ملکیت میں چلی جاتی ہے، اور قیامت تک مسجد ہی رہتی ہے، کسی کو اس کی حیثیت تبدیل کرنے کا اختیار نہیں ہے، اس مسجد کی حفاظت ضروری ہے، اسے آباد رکھا جائے، لہذا صورت مسئولہ میں مسجد کو دوسری جگہ منتقل کرنا جائز نہیں ہے۔
امام احمد کا مسلک
امام احمد کے اس سلسلہ میں دو اقوال ہیں
پہلا قول
یہ کہ اگر کوئی مسجد ویران ہوجائے، وہاں سے آبادی ختم ہو جائے تب بھی مسجد مسجد باقی رہے گی، الاتہ اس کا سامان فروخت ہوسکتاہے
دوسرا قول
یہ ہے کہ اگر مسجد ویران ہو جائے، وہاں مسلمانوں کی آبادی ختم ہو جائے، آئندہ بھی اس کے آباد ہونے کی امید نہ ہو تو مجبوری کے درجہ میں اس کو فروخت کرنے کی گنجائش ہے
لیکن مسجد کی منتقلی کے سلسلے میں امام احمدؒ کے اس قول کو خود فقہاء حنابلہ نے امام احمدؒ کا تفرد قرار دیا ہے۔
احناف اور حنابلہ کے مسلک کو تفصیلی دلائل سے معلوم کرنا چاہے تو نیچے لنک پر کلک کریں
تفصیلی جواب
تمام مسجدیں اللہ عزوجل کے گھر ہیں ، جب زمین کے کسی حصہ پر مسجد کی تعمیر ہوجاتی ہےاور اسے اللہ کے گھر کے لیے وقف کردیا جاتاہے تو وہ پوری زمین اللہ کی عبادت کے لئے ہوکر قابل احترام بن جاتی ہے، اوراسے اللہ عزوجل سے خصوصی نسبت حاصل ہوجاتی ہے ،جس کی وجہ سے یہ زمین عام زمینوں کے بالمقابل افضل بن جاتی ہے ، اوراس زمین پرمالک حقیقی اللہ کی دائمی ملکیت ثابت ہوجاتی ہے، یعنی وہ چیز انسانی عارضی ملکیت سے نکل کراصل مالک کی طرف لوٹ جاتی ہے،
شامی میں ہے۔
فإذا تـم ولزم لا يملك ولا يملك ولا يعار ولا يرهن۔ (الدر المختار ) قوله لا يـمـلك أي لا يكون مملوكا لصاحبه، ولا يملك أي لا يقبل التمليك لغيره بالبيع و نحوه ، لاستحالة تمليك الخارج عن ملكه ، ولا يعار ولا يرهن لاقتضائهما الملک ( الـدر الـمختار مع الشامي ، كتاب الوقف / مطلب مهـم : فرق أبويوسف بين قوله موقوفة الخ ٥٣٩/٦ زكريا)
اسی طرح الفقہ الاسلامی وادلتہ میں ہے
" إذا صحّ الوقف خرج عن ملک الواقف ، وصار حبیسًا علی حکم ملک الله تعالی ، ولم یدخل في ملک الموقوف علیه ، بدلیل انتقاله عنه بشرط الواقف (المالک الأول) کسائر أملاکه ، وإذا صحّ الوقف لم یجز بیعه ولا تملیکه ولا قسمته". ( الفقہ الاسلامی وادلتہ ج:١٠/٧٦١٧ الباب الخامس الوقف ، الفصل الثالث حکم الوقف)
فقہاء نے تو یہاں تک لکھاہے کہ اب اس جگہ مسجد کی عمارت قائم رہے یا منہدم ہوجائے ، اس میں کوئی نماز پڑھے یا نہ پڑھے ، اس جگہ بستی رہے یا وہ علاقہ ویران ہوجائے بہرحال وہ جگہ قیامت تک کے لئے مسجد ہی رہے گی۔ کیونکہ وہ زمین اب کسی انسان کی ملکیت میں نہیں کہ اس پر اس کا تصرف نافذہواور اس پر فقہاء کاتقریبا اجماع ہےکہ اگر اس زمین پر مسجد باقی نہ بھی رہے اور ویران ہوجائے تو بھی اس کی شان مسجدیت باقی رہتی ہے۔
اب اس پر اصل مالک حقیقی کی ملکیت کے ثابت ہوجانے کی وجہ سے اس میں کسی قسم کا تصرف بیع ، تبادلہ ،ہبہ وغیرہ کا اختیار کسی انسان کو نہیں رہتا۔
الموسوعۃ الفقہیۃ میں ہے۔
جمہور الفقہاء علی أن المسجد لا یباع وفي ھذا یقول الحنفیۃ: من اتخذ أرضہ مسجدا أو استوفی شروط صحۃ وقفہ لم یکن لہ أن یرجع فیہ ولا یبیعہ ولا یورث عنہ لانہ تجرد عن حق العباد وصار خالصا للہ تعالیٰ وإذا أسقط العبد ما ثبت لہ من الحق رجع إلی أصلہ فانقطع تصرفہ عنہ کما فی الإعتاق ولو خرب ما حول المسجد واستغنی عنہ یبقی مسجد عند أبی یوسف لانہ إسقاط منہ، فلا یعود إلی ملکہ وعند محمد یعود إلی ملک البانی (الواقف) إن کان حیا أو إلی وارثہ بعد موتہ وإن لم یعرف بانیہ ولا ورثتہ کان لھم بیعہ، وفي القرطبي لا یجوز نقض المسجد ولا بیعہ ولا تعطیلہ وإن خربت المحلۃ۔ (الموسوعۃ الفقہیۃ ٣٧/٢٢٥)
اسی طرح مشہور حنفی فقیہ علامہ حصکفی علیہ الرحمۃ لکھتے ہیں:
ولو خرب ماحولہ واستغنی عنہ یبقی مسجد عند الامام والثانی ابدا الی یوم القیامۃ وبہ یفتی۔ (درمختارمع الرد: ٤/٣٥٨)
اسی طرح البحر الرائق میں ہے
قال محمد اذا خرب ولیس لہ مایعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد اٰخر او لخراب القریۃ (الی قولہ) وقال ابو یوسف مایعمر بہ وقد استغنی الناس عنہ لبناء مسجد اٰخر او لخراب القریۃ (الی قولہ) وقال ابو یوسف ہو مسجد ابدا الی قیام الساعۃ لا یعود میراثاً ولایجوز نقلہ ونقل مالہ الی مسجد اٰخر سواء کانوا یصلون فیہ اولا وہو الفتویٰ۔ (البحر الرائق ج:٥/٢٥١ کتاب الوقف، فصل فی احکام المساجد، ط: رشیدیہ)
مذہب حنابلہ
جہاں تک فقہاء حنابلہ کے نقطۂ نظر کی بات ہے تو اس سلسلے میں ان کے دو اقوال ہیں، ایک یہ کہ اگر کوئی مسجد ویران ہوجائے، وہاں سے آبادی ختم ہو جائے تب بھی مسجد مسجد باقی رہے گی؛ البتہ اس بات کی گنجائش ہوگی کہ مسجد کا ملبہ یا اس کا قابل استعمال سامان دوسری مسجد کو منتقل کر دیا جائے گا
الانصاف میں ہے
وعنہ الاتّباع؛ المسجد لکن تنقل آلٰتھا الی مسجد أخر ویجوز بیع بعض الآلۃ وصرفھا في عمارتہ (الانصاف علی ھامش المقنع:١٤/٥٢٢)
امام احمدؒ سے مروی ہے کہ مسجدیں بیچی نہیں جا سکتیں؛ البتہ اس کا سامان منتقل کیا جا سکتا ہے، نیز ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض سامان فروخت کر دیا جائے، اور اسے اسی مسجد کی تعمیر میں خرچ کیا جائے۔ (الانصاف علی ھامش المقنع:١٤/٥٢٢)
علامہ محمد ابن قدامہ مقدسی ؒ فقہ حنبلی کے بڑے معتبر ترجمان سمجھے گئے ہیں، انہوں نے متعدد مواقع پر لکھاہے ۔
المساجد لاتباع و انما تنقل آلاتھا۔(المغنی:٥/٣٤٧)
مسجدیں فروخت نہیں کی جائیں گی؛ البتہ اس کے آلات منتقل کئے جا سکتے ہیں۔
اس کے مقابلہ میں دوسرا قول یہ ہے کہ اگر مسجد ویران ہو جائے، وہاں مسلمانوں کی آبادی ختم ہو جائے،آئندہ بھی اس کے آباد ہونے کی امید نہ ہو تو مجبوری کے درجہ میں اس کو فروخت کرنے کی گنجائش ہے۔
الشرح الکبیر میں تحریر بقلم ہے۔
فان قطعت منافعہ بالکلیۃ کدارانھدمت ۔۔۔۔۔ أو مسجد انتقل أھل القریۃ عنہ ۔۔۔۔۔ جاز بیع البعض وإن لم یمکن الانتفاع بشیء منہ بیع جمیعہ۔
اگر وقف کے منافع بالکلیہ ختم ہو گئے، جیسے کوئی مکان تھا، منہدم ہوگیا، یا مسجد تھی، اوراس آبادی کے مسلمان وہاں سے منتقل ہو گئے، تو اگر یہ ممکن ہو کہ اس کا کچھ حصہ بیچ کر بقیہ کی تعمیر کی جائے، تو کچھ حصہ کو فروخت کرنا جائز ہوگا، اور اگر اس سے بالکل نفع اٹھانا ممکن نہ ہو تو اس پورے کو بیچا جا سکتا ہے۔ (الشرح الکبیر:۱۶؍۵۲۲)
ب: مسجد کی منتقلی کے سلسلے میں امام احمدؒ کے اس قول کو خود فقہاء حنابلہ نے امام احمدؒ کا تفرد قرار دیا ہے؛ چنانچہ علامہ مرداوی حنبلی (متوفی ۸۸۵ھ) جو فقہ حنبلی کے معتبر شارحین میں ہیں، نے اس قول کو نقل کرتے ہوئے کہا ہے: ’’ ھو من المفردات‘‘ (الانصاف فی معرفۃ الراجح من الخلاف علی مذہب الامام احمد بن حنبلؒ۷؍۷۸)
یعنی یہ امام احمد بن حنبلؒ کے تفردات میں سے ہے؛اس لئے اس قول کو بہت سے محقق فقہاء حنابلہ نے بھی قبول نہیں کیا ہے، اور اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ویران مسجد میں جو قابل استعمال چیزیں ہیں ، صرف ان کو دوسری مسجد کو منتقل کرنے یا دوسری مسجد کو حوالہ کرنے کی گنجائش ہے؛ چنانچہ ایک حنبلی قاضی نے مسجد کی منتقلی کا فیصلہ کیا تو دوسرے حنبلی المسلک قاضی نے اس پر سخت اعتراض کیا،ایک حنبلی فقیہ ہی سے اس بات کو سنئے۔
۔۔فعارضہ القاضی جمال الدین المرداوی صاحب’’ الانتصار ‘‘ وقال: حکمہ باطل علی قواعد المذھب وصنف في ذالک مصنفا رد فیہ علی الحاکم سماہ ’’ الواضح الجلي في نقض حکم ابن قاضی الجلیل الحنبلي‘‘ ووافقہ صاحب ’’ الفروع ‘‘ علیٰ ذالک– (الانصاف علی المقنع:١٤/٥٢٤)
تو قاضی جمال الدین مرداوی مصنف’ ’ الانتصار‘‘ نے اس سے سخت اختلاف کیا اور کہا کہ مذہب حنبلی کے قواعدکے لحاظ سے یہ فیصلہ غلط ہے، اور انہوں نے اس کی تردید کرتے ہوئے ’’ الواضح الجلي في نقض حکم ابن قاضی الجلي الحنبلي ‘‘ کے نام سے ایک کتاب بھی تالیف فرمائی ،نیز فقہ حنبلی کی ایک اہم کتاب ’’الفروع ‘‘ کے مصنف نے بھی ان کی موافقت کی ہے۔
یہ بات کہ جب ایک جگہ مسجد بن جائے تو اب اس کی حیثیت تبدیل نہیں کی جا سکتی، وقف کے سلسلہ میں حنابلہ کے مقررہ اصول سے بھی مطابقت رکھتی ہیں؛ کیوں کہ امام احمد کے نزدیک جب کوئی چیز ایک بار وقف کر دی جاتی ہے تو وہ ہمیشہ وقف ہی باقی رہتی ہے، جب عام اوقاف کے لئے یہ حکم ہے تو مسجد کے لئے تو بدرجۂ اولی یہ حکم ہونا چاہئے؛
چنانچہ الکافی میں علامہ ابن قدامہ حنبلی مقدسی فرماتے ہیں۔
ولایجوز التصرف في الوقف بما ینقل الملک في الرقبۃ لقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم في حدیث عمرؓ لا یباع أصلھا، ولا یوھب، ولا یورث؛ لأن مقتضی الوقف التابید وتحبیس الأصل؛ بدلیل أن ذالک من بعض ألفاظہ والتصرف في رقبتہ ینافي ذالک۔ ( الکافی: ۳؍۵۸۰)
حنابلہ کی بحث دارالعلوم دیوبند کے ایک فتوے سے لی گئی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں