پیر، 17 جنوری، 2022

کسی نے الگ الگ الفاظ میں تین طلاق دے دی

 سوال

شوھر نے بیوی سے جگھڑے کی صورت میں غصہ میں آکر ایک ہی وٹس ایپ وائس مسیج میں یہ بات کہے دیی ہیں میں نے تمہارے طلاق ٹھیک ہے جاو پھر کہا دی ہیں میں نے اوکے پھر کہا آج سے تم میری طرف سے فارغ ہو۔ اب پوچھنا یہ ہیکہ ان باتوں سے کتنی طلاقیں واقع ہوئی ہیں؟

سائل: محمدارشاد

الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


شوہر کی جانب سے کہے گئے الفاظ دیی ہیں میں نے تمہارے طلاق ٹھیک ہے جاو،  پھر دوسری مرتبہ کہا دی ہیں میں نے اوکے، پھر کہا آج سے تم میری طرف سے فارغ ہو۔


یہ تین طلاقیں ہوجائیں گی، نکاح ختم ہوجائے گا، اب رجوع جائز نہیں ہے، پہلے دو الفاظ سے طلاق رجعی واقع ہوگی اور بعد میں آپ نے کہا کہ آپ میری طرف سے فارغ ہیں“ یہ جملہ ان الفاظ کنائی میں سے ہے جن سے نیت یا مذاکرہ طلاق کے وقت طلاق بائن واقع ہوجاتی ہے لہٰذا  طلاق کی نیت سے یہ الفاظ کہے ہیں جیسا کہ آپ کی تحریر سے واضح ہوتا ہے، اب بیوی کے ساتھ رہنا جائز نہیں ہے۔ دونوں فوراً علیحدگی اختیار کرلیں گے


ولو قال انا بریٴ من نکاحک وقع الطلاق اذا نواہ (رد المحتار: ۴/۵۳۵، ط: زکریا دیوبند)


اسی طرح بدائع الصنائع میں ہے:

"وحال الغضب ومذاكرة الطلاق دليل إرادة الطلاق ظاهرًا فلايصدق في الصرف عن الظاهر". (كتاب الطلاق، فصل في النية في نوعي الطلاق ٣/١٠٢ دار الكتب العلمية)


اور یہ الفاظ چونکہ عرف میں اب طلاق ہی کے لئے استعمال ہونے لگے ہیں اس لئے  یہ اب صریح کے قائم مقام ہوگئے ہیں لہذا اس میں نیت کی بھی ضرورت نہیں ہے


شامی میں ہے

فإن سرحتك كناية لكنه في عرف الفرس غلب استعماله في الصريح فإذا قال رها كردم أي سرحتك يقع به الرجعي مع أن أصله كناية أيضا وما ذاك إلا لأنه غلب في عرف الناس استعماله في الطلاق وقد مر أن الصريح ما لم يستعمل إلا في الطلاق من أي لغة كانت۔ (۲۹۹/۳)


تین طلاق کے بعد بیوی قطعی طور پر حرام ہوجاتی ہے بدون حلالہ شرعیہ کے اس سے دوبارہ نکاح بھی نہیں ہوسکتا۔


حلالہ شرعیہ یہ ہے کہ شوہر کے بیوی کو تین طلاق دینے کے بعد شوہر کے لیے مطلقہ ثلاثہ کے حلال ہونے کی شریعت نے جو ترتیب بتلائی ہے ، یعنی: عدت گزارکر عورت کسی دوسرے شخص سے نکاح کرلے اور دوسرا شوہر ہمبستری بھی کرلے، پھرکسی وجہ سے طلاق دیدے یا انتقال کرجائے اور عورت عدت طلاق یا عدت وفات گزارلے ، تو اب یہ پہلے شوہر سے دوبارہ نکاح کرسکتی ہے ، پہلے شوہر کے لیے عورت کے حلال ہونے کے اس شرعی ضابطے کو“ تحلیل”کہتے ہیں، جس کو اردو میں“ حلالہ شرعیہ”سے تعبیر کرتے ہیں،

قرآن میں ہے۔ فان طَلَّقَہَا، فَلا تَحِلُّ لَہ مِن بَعدُ حَتّٰی تَنکِحَ زَوجاً غَیرَہ۔

اِس آیت سے پہلے”الطلاق مرتان الخ“ کا ذکر ہے، پوری آیت کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالی فرمارہے ہیں کہ اگر دوطلاق دینے کے بعد فوری طور پر تیسری طلاق بھی دیدی، تو اب وہ عورت طلاق دینے والے مرد کے لیے اُس وقت تک حلال نہیں ہوگی جب تک کہ وہ شرعی ضابطے کے مطابق دوسرے مرد سے نکاح نہ کر لے اور پھر وہ دوسرا شخص نکاح و ہم بستری کے بعد اس کو طلاق نہ دیدے، تو عدت کے بعد یہ عورت پہلے شوہر کے لیے حلال ہوجائے گی۔


اسی طرح الفتاوى الهندية 

"وإن كان الطلاق ثلاثاً في الحرة وثنتين في الأمة لم تحل له حتى تنكح زوجاً غيره نكاحاً صحيحاً ويدخل بها، ثم يطلقها أو يموت عنها، كذا في الهداية، ولا فرق في ذلك بين كون المطلقة مدخولاً بها أو غير مدخول بها، كذا في فتح القدير، ويشترط أن يكون الإيلاج موجباً للغسل وهو التقاء الختانين، هكذا في العيني شرح الكنز. الفتاوى الهندية (١/٤٧٣) وللہ اعلم بالصواب

العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: