ہفتہ، 15 جنوری، 2022

ولد زنا کو گود لیے کا حکم

 سوال

الســـلام علیکم و رحمۃ اللہ وبرکاتہ

کیا فرماتے ہیں علماء کرام اس مسئلے میں کہ

زنا سے جو بچہ پیدا ہو اس کو گود لے کر پرورش کرنا کیسا ہے

سائل: عبدالرحمٰن ناگپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


کسی بھی بچے کو تربیت ،پرورش اور کفالت وغیرہ کے لیے  گود لینا جائز ہے،اس کو شریعتِ مطہرہ میں متبنی یعنی لے پالک اور منہ بولابیٹا کہتے ہیں اور اس کا شرعی حکم یہ ہے کہ شرعی اعتبار سےوہ  کسی بھی حکم میں حقیقی اولاد کا درجہ نہیں رکھتا؛ اور نہ ہی اس پر حقیقی اولاد والے احکام جاری ہوتے ہیں، اس لیے گود لینے والے کا اس کے نام کے ساتھ بحیثیت باپ اپنا نام لگانا، وراثت میں اس کا حق دار ہونا اور بالغ یا قریب البلوغ ہونے کے بعد مرد گود لینے والے مرد یا عورت کا اس سے پردہ شرعی نہ کرنا (جب کہ اس بچہ یا بچی سے گود لینے والے مرد یا عورت کے لیے حرمت کا کوئی رشتہ نہ ہو)وغیرہ درست نہ ہوگا۔


اور لے پالک اور منہ بولی اولاد کو ان کے اصل والد کی طرف منسوب کرنا ضروری ہے۔  جب رسولﷺ نے زید بن حارثہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اپنا ”متبنیٰ“ (منہ بولا بیٹا)   بنایا اور لوگ ان کو ”زید بن محمد“ پکارنے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں


البتہ گود میں لینے والے کو  بچے کی  پرورش، تعلیم وتربیت  اور اسے ادب واخلاق سکھانے کا ثواب ملتا ہے،

لہذا ولد زنا کو شرعی حدود کی رعایت کے ساتھ  گود لے سکتے ہیں، اور چونکہ بچہ ناجائز ہے تو ولدیت کے خانہ میں کچھ نہ لکھا جائے،البتہ سرپرست کے خانہ میں یا ولدیت کا خانہ سرپرست کے خانہ میں تبدیل کراکے اس میں گود لینے والا اپنا نام درج کراسکتا ہے۔

اور اگر شرعی حدود کی رعایت مشکل ہو تو کوئی بچہ گود نہ لیں،بچہ گود لے کر احکام شرع کی رعایت نہ کرنا اور اخروی گرفت کے اسباپ پیدا کرنا عقل مندی کا کام نہیں ہے۔

 

قرآن کریم میں منھ بولے بیٹے کا حکم

وَمَا جَعَلَ اَدْعِيَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاهِکُمْ وَاﷲُ يَقُوْلُ الْحَقَّ وَهُوَ يَهْدِی السَّبِيْلَ۔  (احزاب)

اور نہ تمہارے منہ بولے بیٹوں کو تمہارے (حقیقی) بیٹے بنایا، یہ سب تمہارے منہ کی اپنی باتیں ہیں اور اللہ حق بات فرماتا ہے اور وہی (سیدھا) راستہ دکھاتا ہے۔


قرآن کریم میں دوسری جگہ ارشاد ہے۔

اُدْعُوْهُمْ لِاٰبَآئِهِمْ هُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اﷲِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓا اٰبَآءَهُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّيْنِ وَمَوَالِيْکُمْ (الاحزاب)


تم اُن (مُنہ بولے بیٹوں) کو ان کے باپ (ہی کے نام) سے پکارا کرو، یہی اللہ کے نزدیک زیادہ عدل ہے، پھر اگر تمہیں ان کے باپ معلوم نہ ہوں تو (وہ) دین میں تمہارے بھائی ہیں اور تمہارے دوست ہیں۔


مشکوۃ شریف میں ہے۔

 وقال النبي صلی اللہ علیہ وسلم علیہ وسلم:من ادعی إلی غیر أبیہ فعلیہ لعنة اللہ والملائکة والناس أجمعین، لا یقبل منہ صرف ولاعدل (مشکوة شریف ص ۲۳۹، بحوالہ: صحیحین )،


روح المعاني میں ہے

ویعلم من الآیة أنہ لا یجوز انتساب شخص إلی غیر أبیہ وعد ذلک بعضھم من الکبائر اھ۔ ( روح المعاني ۲۱: ٢٢٤،ط:مکتبة إمدادیة، ملتان،باکستان) واللہ أعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: