پیر، 24 جنوری، 2022

دخول سے پہلے طلاق کی صورت میں عدت کا حکم

 سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ حضرت ایک سوال ہے اگر کسی عورت کا نکاح ہوا اور خلوت صحیحہ نہیں پائی گئی اور اس بیچ میں شوہر نے طلاق دے دیا تو عورت پر عدت آئے گی یا نہیں حوالے کے ساتھ جواب عنایت فرمائیں بہت مہربانی ہوگی۔

سائل: محمد انصاف للریا


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


نکاح کے بعد رخصتی اور خلوت صحیحہ سے پہلے میاں بیوی کے درمیان طلاق واقع ہوجائے، تو اس صورت میں عورت پر طلاق کے بعد عدت لازم نہیں ہوتی، اسی طرح اگر رخصتی کے بعد خلوت صحیحہ ہونے  سے پہلے طلاق واقع ہوجائے، تو بھی عدت لازم نہیں ہوگی۔

لہذارخصتی اور خلوتِ صحیحہ سے پہلے طلاق ہونے کی صورت میں مذکورہ عورت پر عدت واجب نہیں ہوگی، وہ عدت گذارے بغیر کسی بھی دوسرے شخص سے نکاح کرسکتی ہے۔


فتاوی شامی میں مرقوم ہے۔

(وَإِنْ فَرَّقَ) بِوَصْفٍ أَوْ خَبَرٍ أَوْ جُمَلٍ بِعَطْفٍ أَوْ غَيْرِهِ (بَانَتْ بِالْأُولَى) لَا إلَى عِدَّةٍ (وَ) لِذَا (لَمْ تَقَعْ الثَّانِيَةُ) (٤/٥١١ شامی باب طلاق غیرالمدخول بھا)


اسے طرح ایک اور جگہ تحریر بقلم ہے۔

وسبب وجوبہا عقد النکاح المتأکد بالتسلیم وما جری مجراہ من موت أو خلوۃ۔ (الدر المختار مع الشامي ۵؍۱۸۰ زکریا، کذا في الفتاویٰ التاتارخانیۃ ٥/٢٢٤ زکریا)


خانیہ میں ہے

لا یجب علیہا العدۃ، وکذا لو طلّقہا قبل الخلوۃ۔ (خانیۃ علی الہندیۃ١/٥٤٩)


اسی طرح عالمگیری میں ہے۔

ھی انتظار مدۃ معلومۃ یلزم المرأۃ بعد زوال النکاح حقیقۃ او شبہۃ المتأکد بالدخول او الموت کذا فی شرح النقایۃ للبرجندی۔ (فتاویٰ عالمگیریۃ ١/٥٢٤ الباب الثالث عشری العدۃ)واللہ اعلم بالصواب


العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: