سوال
ایک مکان کو ایک آدمی سے لیا پانچ لاکھ روپے کا پانچ سال کے لیے اور اس کو کرایا پر لگا دیا تو جاءز ھے کیا حکم ہے
سائل: عمران بانکوی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
کسی بھی مکان دکان یا زمین وغیرہ کو کرایہ پر حاصل کرنے کے بعد کرایہ پردینے کے سلسلہ میں فقہاء کرام نے کچھ تفصیل بیان کی ہے
تفصیل ملاحضہ فرمائیں۔
اگر کرایہ دار کسی دوسرے شخص کو آگے کرایہ پر دیتا ہے تو اس کے لیے کچھ شرطیں ہیں۔
اول جس کام سے مکان کو نقصان پہنچنے کا خدشہ ہو ایسے کام کرنے والے شخص کو مکان کرایہ پر نہیں دے سکتا۔
دوم مالک مکان سے جو کرایہ طے ہوا ہے اس سے زیادہ کرایہ نہیں لے سکتا، ورنہ زیادتی اس کے لیے حلال نہیں ہوگی، اس کو صدقہ کرنا لازم ہوگا۔
سوم مالک مکان سے جس جنس سے کرایہ طے ہوا ہے اس جنس کے علاوہ سے کرایہ طے کرے تو زیادتی جائز ہے، یعنی پہلے کرایہ روپے پیسے میں ہو تو یہ آگے روپئے پیسے کے بجائےکوئی اور چیز جیسے کپڑا یا سونا چاندی وغیرہ کرایہ مقرر کرے۔
چہارم کرایہ دار نے اس مکان میں کچھ کام، مثلاً رنگ، ٹائلز، یا اس میں کوئی اضافہ یادیگر تعمیراتی کام کرایا ہو، تو ایسی صورت میں وہ پہلے کرایہ سے زیادہ پر بھی دوسرے کو کرایہ پر دے سکتا ہے
صورت مسئولہ میں کسی دوسرے کو مکان کرایہ میں دینا درست ہے، لیکن اگر آپ نے مکان میں کوئی تعمیر وغیرہ اضافی کام نہیں کروایا ہو تو کرایہ میں مکان اسی کریہ پر دینا لازم ہےجس کرایہ میں مکان کے مالک نے آپ کو مکان دیا ہے۔
اگر آپ آگے زائد کرایہ میں مکان کرایہ پر دینا چاہتے ہیں تو اس کا طریقہ یہ ہے کہ آپ مکان میں کوئی تعمیر وغیرہ اضافی کام کروائیں پھر آگے زیادہ کرایہ پر دے دیں، اس طرح زائد کرایہ میں بھی آپ کے لیے مکان کرایہ پر دینا درست ہوجائے۔
جیسا کہ شامی میں ہے۔
وله السكنى بنفسه وإسكان غيره بإجارة وغيرها وكذا كل ما لا يختلف بالمستعمل بطل التقييد؛ لأنه غير مفيد، بخلاف ما يختلف به كما سيجيء، ولو آجر بأكثر تصدق بالفضل إلا في مسألتين: إذا آجرها بخلاف الجنس أو أصلح فيها شيئاً.
تحتہ فی الشامیہ (قوله: بخلاف الجنس) أي جنس ما استأجر به وكذا إذا آجر مع ما استأجر شيئا من ماله يجوز أن تعقد عليه الإجارة فإنه تطيب له الزيادة كما في الخلاصة. (قوله: أو أصلح فيها شيئا) بأن جصصها أو فعل فيها مسناة وكذا كل عمل قائم؛ لأن الزيادة بمقابلة ما زاد من عنده حملا لأمره على الصلاح كما في المبسوط والكنس ليس بإصلاح وإن كرى النهر قال الخصاف تطيب وقال أبو علي النسفي: أصحابنا مترددون وبرفع التراب لاتطيب وإن تيسرت الزراعة ولو استأجر بيتين صفقة واحدة وزاد في أحدهما يؤجرهما بأكثر ولو صفقتين فلا خلاصة ملخصاً. (الدر المختار ٩/٣٨)
اسی طرح محیط برہانی میں ہے
قال محمد رحمه الله: وللمستأجر أن يؤاجر البيت المستأجر من غيره، فالأصل عندنا: أن المستأجر يملك الإجارة فيما لا يتفاوت الناس في الانتفاع به؛ وهذا لأن الإجارة لتمليك المنفعة والمستأجر في حق المنفعة قام مقام الآجر، وكما صحت الإجارة من الآجر تصح من المستأجر أيضاً فإن أجره بأكثر مما استأجره به من جنس ذلك ولم يزد في الدار شيء ولا أجر معه شيئاً آخر من ماله مما يجوز عند الإجارة عليه، لا تطيب له الزيادة عند علمائنا رحمهم الله (المحيط البرهاني في الفقه النعماني٧/٤٢٩ ط:دارالکتب العلمیۃ)۔ واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں