سوال
السلام علیکم
سوال یہ کہ میں اسلامک ولوگ ویڈیو بناتی ہو یوٹیوب چینل پر برقعے میں اور مقصد یہ کہ لوگ دنیاوی ویڈیو چھوڑ کر اسلامک ویڈیو دیکھیں جس سے انکو فائدہ ہو ۔یہ صحیح ہے یا نہیں ؟
سائل: مدیحہ، بذریعہ محمد ارشاد بھوپالی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
سب سے پہلے یہ بات یاد رہے، کہ عورت کی آواز کے بارے میں اگر چہ فقہائےکرامؒ کا اختلاف ہے، لیکن صحیح یہ ہے کہ عورت کی آواز اپنی اصل کے اعتبار سے ستر میں داخل نہیں۔
شامی میں ہے۔
(قوله وصوتها) معطوف على المستثنى يعني أنه ليس بعورة (قوله على الراجح) عبارة البحر عن الحلية أنه الأشبه. وفي النهر وهو الذي ينبغي اعتماده. (حاشية ابن عابدين-رد المحتار:٢/٢٧)
اصل مقصد فتنہ کے دروازوں کو بند کرنا ہے،جہاں غیر محرم تک آواز پہنچنے اورپہنچانے میں فتنہ کا اندیشہ ہو، وہاں اس سے احتیاط کرنا واجب ہے۔
شامی میں عورت کی آواز کے سلسلہ میں یہ عبارت نقل کی ہے۔
(ولا تلبي جهرا) بل تسمع نفسها دفعا للفتنة؛ وما قيل إن صوتها عورة ضعيف (قوله دفعا للفتنة) أي فتنة الرجال بسماع صوتها (قوله وما قيل) رد على العيني۔ (الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار: ٣/٥٥١)
اسی طرح دوسری جگہ ہے۔
قوله تخافت لأن صوتها عورة كما في الكافي والتبيين- (الدر المختار وحاشية ابن عابدين-رد المحتار:٣/٦٤)
لہذا صورتِ مسئولہ میں عورت کی آواز میں نعت، نظم اور بیانات کی ویڈیوز بناکر کے سوشل میڈیا پر اس کو اَپ لوڈ کرنے میں نامحرم مردوں تک آواز کا پہنچانا پایا جائے گا اور راجح قول کے مطابق اگرچہ عورت کی آواز ستر میں داخل نہیں ہے، لیکن چونکہ اجنبی مردوں کے سامنے عورتوں کی اپنی آواز ظاہر کرنے میں بہرحال خوفِ فتنہ ہے، اس لیے اس کی اجازت نہیں دی جاسکتی، یہی وجہ ہے کہ شریعتِ مطہرہ میں عورتوں کے لیے اذان کا حکم نہیں ہے، اور دیگر تسبیحات و تذکیر و تہلیل وغیرہ بھی پست آواز سے کہنے کا حکم ہے، چنانچہ قرآنِ کریم میں اللہ تعالیٰ نے ازواجِ مطہرات کو ضرورت کی بنا پر مردوں سے بات کرتے وقت آواز کو نرم رکھنے سے منع فرمادیا تھا۔
اور اس طرح اپلوڈ کرنے میں ایک یہ بھی خرابی ہے کہ نعتیں، نظمیں اور بیانات مرد بھی سنیں گے، اور نامحرم عورتوں کے لیے مردوں کو خود نعتیں اور نظمیں سنانا جائز نہیں ہے، اور کسی دینی ضرورت کے بغیر عورتوں کے لیے مردوں کو بیانات سنانے اور مسائل بتانے کی بھی اجازت نہیں ہے، یہ بلا ضرورت عورت کی آواز مردوں کو سنانا ہے۔
امام رازی اپنی معروف و مشہور تفسیر احکام القرآن میں رقم طراز ہے۔
قال الجصاص: تحت قولہ ولا یضربن بأرجلہن لیعلم ما یخفین من زینتہن، الآیة۔ وفیہ دلالة علی أن المرأة منہیة عن رفع صوتہا بالکلام بحیث یسمع ذلک الأجانب، إذ کان صوتہا أقرب إلی الفتنة عن صوت خلخالہا (أحکام القرآن)
امداد الفتاوی میں عورت کی قرأت مرد کو سنانے کے سلسلہ میں ایک سوال کے جواب میں حضرت فرماتے ہیں کہ۔
الجواب : ہرگز جائز نہیں۔ لِاَنَّه اِسْمَاعُ صَوْت الْمَرْأَةِ بِلا ضرورة شرعیة( کیونکہ یہ عورت کی آواز کو بغیر شرعی ضرورت کے سنانا ہے)( امداد الفتاوی، ٤/٢٠٠ ط: دارالعلوم کراچی) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں