منگل، 25 جنوری، 2022

امام کے لئے D.J سامان رکھنا اور اس کو استعمال کرنا

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

حضرت سوال یہ ہے کہ اگر کوئی امام مسجد میں امامت کرتا ہے اور وہ D,J, کا سامان  بھی  رکھتا ہے تو کیا اس کے پیچھے نماز پڑھنا صحیح ہے

کیا وہ D,J کی کمائی کو اپنے کام میں لاسکتا ہے کہ نہیںاس کا جواب عنایت فرمائیں مہر بانی ہوگی

سائل: عبدالواجد سہارنپور


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


شریعتِ مطہرہ میں جس اشیاء کو حلال قرار دیا ہے اس کے استعمال میں تو کوئی شک ہی نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی حلال ہے۔

اور شریعتِ مطہرہ نے جن اشیاء کو حرام کہاں ہے اس کو استعمال نہیں کرسکتے، اور اس کی آمدنی بھی حرام ہے۔

البتہ اشیاء میں ایک پہلو ایسا ہے کہ وہ ذو وجہین ہے یعنی اگر اس کو صحیح استعمال کریں تو جائز ہے اور اس کی آمدنی بھی درست ہے، اور اگر اس کو غلط استعمال کریں تو ناجائز ہے، اور اس کی آمدنی بھی درست نہیں ہے، اتنی بات واضح ہونے کے بعد اب تفصیل سمجھئے۔


D.J ان اشیاء میں سے ہے کہ اس کو حلال و حرام دونوں امور میں استعمال کیاجاتاہے۔


حلال کاموں میں استعمال ہونا۔

 D.J کا استعمال حلال کاموں میں بھی ہوتاہے جیسے دینی پروگراموں اجتماعات اور جائز دنیوی امور وغیرہ کے لئے تو ایسے کاموں کے لئے D J کو دینا بلاشبہ جائز ہے اور اس کی کمائی حلال و طیب ہے ایسی کمائی اپنے کام میں بھی لاسکتا ہے مسجد میں یا کسی حلال کام میں بھی صرف کرنا جائز ہے۔


حرام کاموں میں استعمال ہونا۔

D J کو ناجائز امور کے لئے بھی اجرت پر دیاجاتاہے، مثلًا شادی بارات میں ناچ گانے کے لئے دینا کسی فحش پروگرام میں جاکر لگانا وغیرہ ناجائز و حرام ہے اور اس کی کمائی بھی حرام ہے اور ایسی کمائی اپنے استعمال میں لانا بھی درست نہیں ہے۔


قرآن کریم میں ہے۔

وَلَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَالْعُدْوَان

ترجمہ : گناہ اور زیادتی پر ایک دوسرے کی مدد نہ کرو۔ (سورۃالمائدہ )


فتاوی عالمگیری میں ہے :

کذلک الاعانۃ علی المعاصی و الفجور و الحث علیھا من جملۃ الکبائر۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الشھادات، جلد ٣/٤٢٠ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یعنی گناہوں اور برائیوں پر مدد کرنا اور ان پر اکسانا (ابھارنا) جملہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے۔


چنانچہ فتاوی عالمگیری میں ہے 

و لاتجوز الاجارۃ علی شیئ من الغناء و النوح و المزامیر و الطبل و شیئ من اللھو۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الاجارۃ، ٤/٥٥٨ قدیمی کتب خانہ کراچی)

یعنی اور گانا، نوحہ، مزامیر یعنی آلاتِ موسیقی، ڈھول اور لھو یعنی کھیل کود میں سے کسی بھی چیز پر اجارہ یعنی مزدوری جائز نہیں ہے.


اس طرح ھدایہ میں ہے۔

ولایجوز الاستیجار علی الغناء والنوح وکذا سائر الملاھی لانہ استیجار علی المعصیۃ والمعصیۃ لاتستحق بالعقد۔ (ھدایہ،کتاب الاجارات،باب الاجارۃ الفاسدۃ ٣/٣٠٦،مطبوعہ  لاھور)

ترجمہ:اور گانے،نوحے اور اسی طرح تمام لہوولعب کے کاموں پر اجارہ ناجائز ہے،کیونکہ یہ معصیت یعنی اللہ تعالیٰ کی نافرمانی والے کام ہیں اور معصیت کا استحقاق کسی عقد سے نہیں ہوتا۔


بدائع الصنائع میں ہے 

الاستئجار علی المعاصی أنہ لایصح کاستئجار المغنیۃ والنائحۃ۔ (بدائع الصنائع، کتاب الاجارہ، ٤/٣٩مطبوعہ  کوئٹہ)

ترجمہ ناجائز کاموں پراجارہ کرنا، ناجائزہے، جیسے گاناگانے اورنوحہ کرنے پراجارہ کرنا۔


شامی میں ہے۔

واستماع ضرب الدف والمزمار وغیر ذلک حرام،وان سمع بغتۃ یکون معذورا ویجب ان یجتھد ان لایسمع۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار،کتاب الحظر والاباحۃ، ٩/٥٥١ مطبوعہ کوئٹہ)


ترجمہ: دف بجانے اور بانسری اورا ن کے علاوہ دیگر آلاتِ موسیقی کی آواز سنناحرام ہےاور اگر اچانک سننے میں آگئی تو معذور ہےاور اس پرواجب ہے کہ نہ سننے کی کوشش کرے۔


اگر امام صاحب D.j کو غلط کاموں میں استعمال کرتے ہیں تو یہ درست نہیں ہے اور اس کی آمدنی بھی ان کے لئے حلال نہیں ہے، اولا امام صاحب کے پاس کچھ معزز حضرات کو بھیجیں تاکہ وہ انکو سمجھائیں  پھر بھی نہ مانے تو وہ فاسق شمار ہوں گے، اور فاسق‘‘  وہ شخص کہلاتا ہے جو  گناہِ کبیرہ کا ارتکاب کرتا ہو یا صغیرہ گناہوں پر اصرار کرتا ہو، ایسے شخص کو اپنے اختیار سے امام بنانا مکروہِ تحریمی (ناجائز) ہے، لہذا ان کی امامت بھی مکروہ تحریمی ہے۔ان سے معذرت کردی جائے اور ان سے زیادہ جو متقی اور پرہیزگار ہو ان کو امام مقرر کیا جائے۔


طحطاوی میں ہے:

"كره إمامة الفاسق، .... والفسق لغةً: خروج عن الاستقامة، وهو معنی قولهم: خروج الشيء عن الشيء علی وجه الفساد. وشرعاً: خروج عن طاعة اﷲ تعالی بارتكاب كبیرة. قال القهستاني: أي أو إصرار علي صغیرة. (فتجب إهانته شرعاً فلایعظم بتقدیم الإمامة) تبع فیه الزیلعي ومفاده كون الکراهة في الفاسق تحریمیة ( طحطاوی علی مراقی ص ٣٠٣ ط: دارالکتب العلمیة)


لیکن اگر کوئی متدین امام میسر نہ ہو اور ایسا شخص خود امامت کے لیے آگے بڑھ گیا ہو یا پہلے سے یہ شخص امام  ہو اور ان کو علاحدہ کرنے میں قوم کی طرف سے فتنے کا اندیشہ ہو تو اس کی کوئی متبادل ایسی صورت اختیار کی جائے کہ فتنہ سے محفوظ بھی رہے اور مسئلہ حل بھی ہوجائے۔

اور جب تک ایسے شخص کی اقتدا نہ کرنے کی صورت میں جماعت فوت ہونے کا اندیشہ ہو اس وقت تک اس شخص کے پیچھے نماز ادا کرنا انفراداً نماز ادا کرنے سے بہتر ہے۔ نماز بہر حال ایسے شخص کی اقتدا میں بھی ہوجائے گی، واجب الاعادہ نہیں ہوگی۔

البحر الرائق میں ہے۔

ويكره الاقتداء بهم ( إلى قوله ) فإن أمكن الصلواة خلف غيرهم فهو أفضل وإلا فالاقتداء أولى عن الانفراد . ( البحر الرائق ، كتاب الصلاة ، باب الإمامة زكريا ١ / ٦١٠ ، کوٹنه ٣٤٩/١ )


البحر الرائق میں دوسری جگہ ہے۔

ولـو صـلـى خـلـف فاسق أو مبتدع ينال فضل الجماعة لكن لا ينال كـمـا يـنـال خلف تقى ورع الخ . ( الـبـحـر الـرائـق ، كـتـاب الصلاة ، باب الإمامة ، زكريا ٦١٠/١ )


حاشیة الطحطاوي علی المراقي میں ہے۔

 کرہ إمامة الفاسق العالم لعدم اہتمامہ بالدین،فتجب إھانتہ شرعاً، فلا یعظم بتقدیمہ للإمامة، قولہ:”فتجب إھانتہ شرعاً،فلا یعظم بتقدیمہ للإمامة“، تبع فیہ الزیلعي ومفادہ کون الکراھة فی الفاسق تحریمیة۔ (مراقی الفلاح مع حاشیة الطحطاوي، ص ۳۰۳، ط: دار الکتب العلمیة بیروت)۔ واللہ اعلم بالصواب

العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا

کوئی تبصرے نہیں: