سوال
اسلام علیکم ورحمتہ وبرکاتہ
سوال۔پیسہ ٹرانسفر پر جو پیسے لیتے ہیں وہ کیسا ہے؟
سائل: مولوی فرحان کڈی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالی
پیسے ٹرانسفر پر پیسے لینا جائز ہے جیسے فون پے گوگل پے وغیرہ سے پیسے ٹرانسفر کئے جاتے ہے وہ ان کی اپنی مہت کی رقم ہے۔ کیونکہ ہماری معلومات کے مطابق گوگل پے ایپ اورفون پے ایپ آن لائن پیسوں کی ادائیگی کی ایپ ہیں، اور یہ لوگوں کو پیسوں کی ادائیگی میں سہولت فراہم کرتی ہیں۔ ادائیگی کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ایپ استعمال کرنے والا شخص اپنے ڈیبٹ کارڈ یا بینک اکاؤنٹ نمبر گوگل پے یا فون پے کی ایپ کو فراہم کرتا ہے اور یہ ایپ اس شخص کے اکاؤنٹ یا کارڈ کو استعمال کر کے ادائیگی کرتی ہے۔
مذکورہ تفصیل کے مطابق گوگل پے ایپ اور فون پے ایپ، اس ایپلی کیشن کو استعمال کرنے والے کی طرف سے قیمت کی ادائیگی کے وکیل ہیں اور استعمال کرنے والوں کی رقوم ان کے پاس قرض نہیں ہوتیں، بلکہ یہ صرف رقوم کی منتقلی میں مدد کرتے ہیں۔
لہذا پیسے ٹرانسفر کرنے والا اگر اس کام کے پیچھے محنت اور وقت صرف کرے اور وہ اجیر بن کر اپنے عمل کی طے شدہ اجرت وصول کرے تویہ معاملہ منی آرڈر کے حکم میں ہو کر مقررہ چارج لینے کی گنجائش ہوگی، صورت مذکورہ میں, فون پے, گوگل پے کے ذریعہ رقم ٹرانسفر کرنے کی موجودہ دور میں جو شکل ہے یہ منی آرڈر کی ایک جدید شکل ہے اس پر اضافی رقم بطور اجرت کے لینا درست ہے چونکہ اس میں مقررہ جگہ تک رقم پہنچانے میں محنت کرنی پڑتی ہے اس لئے حق المحنت کی وجہ سے اجرت لینا درست ہے جو کہ شرعاً جائز ہے تاہم اسمیں ایک طرح کا قرض پر نفع اٹھانا بھی پایا جاتا ہے لہذا احتیاط کرنا بہتر ہے اور اگر قانوناً اس کی ممانعت ہوتو اس سے بچنا ہی مناسب ہے۔ (مستفاد: امداد الفتاوی ٣/١٤٦)
امداد الفتاوی میں حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ منی آرڈر سے متعلق سوال کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’منی آرڈر مرکب ہے دو معاملوں سے، ایک قرض: جو اصل رقم سے متعلق ہے، دوسرے اجارہ: جو فارم کے لکھنے اور روانہ کرنے پر بنامِ فیس کے دی جاتی ہے، اور دونوں معاملے جائز ہیں، پس دونوں کا مجموعہ بھی جائز ہے۔ اور چوںکہ اس میں ابتلاء عام ہے، اس لئے یہ تاویل کرکے جواز کا فتویٰ مناسب ہے۔( امداد الفتاوی ٣/١٤٦)
مستفاد: س مسئلہ میں آن لائن فتاوی دارالعلوم دیوبند اور فتاویٰ بنوریہ اور فتاویٰ عثمانیہ سے استفادہ کیا گیا ہے۔
فقط واللہ تعالی اعلم
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں