سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
مسافر اگر گاؤں میں رہتا ہو، سفر شرعی کے ارادے سے نکلا ہو، تو وہ گاؤں کی حدود سے نکلنے کے بعد قصر کریگا یا شہر کی حدود سے نکلنے کے بعد؟
بایں طور واپسی میں گاؤں کی حدود میں پہونچنے کے بعد اتمام کریگا یا شہر کی حدود میں پہونچنے کے بعد؟ بینوا توجروا۔ جزاکم اللہ خیرا
سائل: محمد سرفراز سہارنپور
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
صورت مسئولہ میں مسافر گاؤں میں رہتا ہو، اور وہ گاؤں شہر سے الگ ہے، شہر میں اس کا شمار نہیں ہوتا تو ایسی صورت میں اگر وہ سفر شرعی کے ارادے سے گاؤں کی حدود سے نکلے گا تو وہ مسافر کے حکم میں ہوجائے گا اب وہ قصر کرے گا، اس کے لئے اتمام جائز نہیں ہے، اسی طرح واپسی میں گاؤں کی حدود میں پہونچنے کے بعد اتمام کریگا شہر کی حدود میں دخول کا اعتبار نہیں ہوگا۔
فتویٰ قاسمیہ ٨/٥٨٥ میں ایک سوال کے جواب میں لکھا ہےکہ:
سفر شرعی کی نیت سے اپنے گاؤں سے باہر نکلتے ہی قصر کا حکم لگ جاتا ہے، شہر سے تجاوز کرنے کی ضرورت نہیں ہے، اس میں شہر کا کوئی تعلق نہیں؛ بلکہ صرف اپنی بستی اور آبادی ہی کا اعتبار ہوتا ہے؛ لہٰذا واپسی میں بھی شہر میں پہنچنے سے قصر کا حکم ختم نہ ہوگا، جب تک کہ اپنی بستی کی آبادی میں داخل نہ ہوجائے۔
عن ابن عمر -رضي اﷲ عنہ- أنہ کان یقصر الصلاۃ حین یخرج من بیوت المدینۃ، ویقصر إذا رجع حتی یدخل بیوتہا۔(مصنف عبدالرزاق، باب المسافر متی یقصر إذا خرج مسافرا؟ المجلس العلمي ۲/ ۵۳۰، رقم: ۴۳۲۳)
عن أبي حرب بن أبي الأسود الدیلمي أن علیا لما خرج إلی البصرۃ رأی خصا، فقال: لو لا ہذا الخص لصلینا رکعتین، فقلت: ما خصا؟ قال: بیت من قصب۔ (مصنف عبدالرزاق، باب المسافر متی یقصر إذا خرج مسافرا؟ المجلس العلمي ۲/ ۵۲۹، رقم: ۴۳۱۹)
من خرج من عمارۃ موضع إقامتہ قاصدا۔ (تنویر الأبصار، کتاب الصلاۃ، باب صلاۃ المسافر، کراچی ۲/ ۲۲۱، زکریا ۲/ ۵۹۹)
وکذا إذا عاد من سفرہ إلی مصر لم یتم حتی یدخل العمران۔ (البحر الرائق، کتاب الصلاۃ، باب المسافر، زکریا ۲/ ۲۲۶، کوئٹہ ۲/ ۱۲۸، کبیري صلاۃ المسافر، أشرفیہ ۵۳۹) واللہ اعلم بالصواب۔
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں