بدھ، 26 جنوری، 2022

کورٹ میرج کا شرعی حکم

سوال

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ مفتی صاحب

لڑکا لڑکی دونوں شادی جلدی کرنا چاھتے ہیں لیکن گھر والوں کی طرف سے تاخیر ہے تو انہوں نے کورٹ میرج کرلی آیا انکا نکاح ہوا یا نہیں برائے مہربانی رہنمائی فرمائیں جزاکم اللہ

سائل: محمد عبداللہ بن رحیم بخش 



الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


بچہ جب حد بلوغ کو پہنچ جائے تو جلدی سے اس کا نکاح کردینا چاہئے۔ جب کہ لڑکا اپنی بیوی کا نان نفقہ دینے پر خود قادر ہو یا والد وغیرہ اس کا اور اس کی بیوی کا خرچہ اٹھانے کے لیے تیار ہو، اگر قرائن سے اندازہ ہو کہ بیٹا شادی کرنا چاہتا ہے، اور  شادی نہ کروانے کی صورت میں بچہ کا گناہ میں مبتلا ہونے کا اندیشہ ہے اور پھر بھی والدین بلا کسی عذر کے محض سماجی رواجات کی وجہ سے اس کی شادی کرانے میں غیر ضروری تاخیر کریں تو اولاد کے گناہ میں مبتلا ہونے کی صورت میں والدین پر بھی اس کا وبال آئے گا۔


مشکوہ شریف کی حدیث ہے۔

وعن أبي سعيد وابن عباس قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من ولد له ولد فليحسن اسمه وأدبه فإذا بلغ فليزوّجه، فإن بلغ ولم يزوّجه فأصاب إثماً فإنما إثمه على أبيه۔ (مشكاة المصابيح (ص ٢٧٠ کتاب النکاح الفصل الثالث)

ترجمہ: جس کے ہاں بچہ پیدا ہو اس کی ذمہ داری ہے کہ اس کا اچھا نام رکھے، بالغ ہونے پر اس کی شادی کرے، اگر شادی نہیں کی اور اولاد نے کوئی گناہ کرلیا تو باپ اس جرم میں شریک ہوگا اور گناہ گار ہوگا۔


لہذا اگر مناسب رشتہ موجود ہوتو والدین کو جلد از جلد اس کا نکاح کروادینا چاہئے۔


مسئولہ صورت میں لڑکا اور لڑکی دونوں اگر بالغ اور باہم کفو ہوں اور شرعی گواہوں کی موجودگی میں نکاح کا ایجاب وقبول کرلیں، تو اس طرح نکاح شرعاً منعقد ہوجاتا ہے، لہذا کورٹ میرج میں دونوں کا نکاح شرعی گواہوں کی موجودگی میں ہوا ہو، تو وہ نکاح شرعاً منعقد  ہوجائے گا۔


در مختار میں ہے۔

وينعقد متلبسا بإيجاب من أحدهما وقبول من الآخر۔ (كتاب النكاح، ٤/٦٩ ط: زکریا)


دوسری جگہ شامی میں مذکور ہے۔

قال الشامي: (وشرط حضور شاہدین) أي یشہدان علی العاقدین، أما الشہادة علی التوکیل بالنکاح فلیست بشرط لصحّتہ کما قدّمناہ عن البحر وإنما فائدتہا الإثبات عند جحود التوکیل ۔ (شامی: ۴/۸۷، ط: زکریا) ۔


اسی طرح عالمگیری میں ہے۔

وأما ركنه فالإيجاب والقبول كذا في الكافي ، والإيجاب ما يتلفظ به أولاً من أي جانب كان والقبول جوابه هكذا في العناية۔ (فتاوی عالمگیری، ۱/۲۹٥ کتاب النکاح) 


لیکن نکاح میں لڑکا لڑکی کے والدین کی اجازت و رضامندی کے بغیر نکاح کرلینا منشأ شریعت کے خلاف ہے، نکاح میں اعلان واظہار مطلوب ہے، اور جو نکاح والدین کی رضامندی سے ہوتا ہے، اس میں بالعموم دوام اور خیر وبرکت ہوتی ہے، زندگی خوش گوار ہوتی ہے، اور ذلت وشرمندگی سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔


شامی میں ہے۔

ولایۃ ندب أی يستحب للمرأة تفويض أمرها إلى وليها كي لا تنسب إلى الوقاحة۔ (شامی ٤/١٥٤ ) واللہ اعلم بالصواب۔


 العارض مفتی آصف گودھروی

خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا


کوئی تبصرے نہیں: