سوال
اَلسَلامُ عَلَيْكُم وَرَحْمَةُ اَللهِ وَبَرَكاتُهُ
زید نے اپنی زکوة کی رقم کسی ٹڑسٹ کو دی ابھی اس ٹرسٹ نے وہ رقم کسی مستحق تک نہیں پہچائی اور اس سے پہلے زید کا انتقال ھو گیا تو وہ زکوة ادا ھو گئی یا نہیں؟
سائل: صدیق زید گجرات گودھرا
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
زکوۃ انسان پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک ایسا فریضہ ہے جو کسی صورت میں بھی معاف نہیں ہوتا، یہاں تک کہ میت کے ذمہ زکوة باقی ہونے کی صورت میں چاہئے تو یہ تھا کہ خود اپنی حیاتی میں زکوة ادا کردیتا ، اور اگر اس کا موقع نہیں ملا تو زکاة کی ادائیگی کی وصیت بھی لازم ہے، ورثاءکو وصیت کر جاتا، بعد وصیت ورثہ زکوۃ ادا نہ کریں تو وہ گنہگار ہوں گے، جیسا کہ فتاوی تاتار خانیہ میں ہے۔
وفی الفتاوی التاتارخانیۃ:"فی الخانیۃ:لو أوصی بأداء الزکوٰۃ یجب تنفیذ الوصیۃ من ثلث مالہ. (٢/٢٩٦، ط: ادارة القرآن والعلوم الاسلامية)
اگر وصیت نہیں کی اور ورثاء نے اپنی طرف سے زکوۃ ادا بھی نہیں کی، تو وہ وصیت نہ کرنے کی وجہ سے گنہگار ہیں، اب زید تو پہلے سے زکوۃ کی رقم سونپ چکا ہے، لہذا وہ ذمہ سے بری ہوجائے گا۔
اب اگر ٹرسٹ والے اس کو مصرف میں استعمال نہیں کریں گے تو وہ گنہگار ہوں گے۔
اسی طرح ہدایہ میں ہے۔
ومن مات وعليه قضاء رمضان فأوصى به أطعم عنه وليه لكل مسكينا نصف صاع من بر أو صاعا من تمر أو شعير، لأنه عجز عن الأداء في آخر عمره فصار كالشيخ الفاني ثم لا بد من الإيصاء عندنا خلافا للشافعي رحمه الله وعلى هذا الزكاة هو يعتبره بديون العباد إذ كل ذلك حق مالي تجري فيه النيابة.
ولنا أنه عبادة ولا بد فيه من الاختيار وذلك في الإيصاء دون الوراثة لأنها جبرية، ثم هو تبرع ابتداء حتى يعتبر من الثلث والصلاة كالصوم باستحسان المشايخ وكل صلاة تعتبر بصوم يوم هو الصحيح۔ (الهداية في شرح بداية المبتدي ١/١٢٤) واللہ اعلم بالصواب
العارض مفتی آصف گودھروی
خادم مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں