منگل، 18 جنوری، 2022

غسل واجب میں غرارے کا حکم

 سوال

السلامُ علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ

غسل واجب میں غرارہ اور استنشاق فرض ہے یا سنتبغیر اس کے غسل ہوگا یا نہیں والسلام۔

ساٸل: عبد الرحمن الہ باد


الجواب وباللہ التوفیق

باسمہ سبحانہ وتعالیٰ


فقہاء نے وضوء کے تین فرائض بیان کئے ہیں۔

(١) منہ بھر کے کلی کرنا، اگر روزہ دار نہ ہو تو غرغرہ کرنا  مسنون ہے۔


(٢) ناک  کو اچھی طرح دھونا، اگر روزہ کی حالت میں نہ ہو ناک   کے نرم حصہ تک پانی چڑھانا مسنون ہے۔  


(٣) پورے بدن پر اس طرح پانی بہانا کہ بال برابر جگہ بھی خشک نہ رہے۔فقط واللہ اعلم


ہدایہ میں ہے

فصل فی الغسل وفرض الغسل المضمضۃ والاستنشاق و غسل سائر البدن۔( الھدایۃ ١/٣٠ ط: رحمانیہ)


اسی طرح بدائع اور تاتار خانیہ میں لکھا ہے

ومنها: المبالغة في المضمضة والاستنشاق إلا في حال الصوم فیرفق؛ لأن المبالغة فیهما من باب التکمیل في التطهیر؛ فکانت مسنونةً إلا في حال الصوم؛ لما فیها من تعریض الصوم للفساد. (بدائع الصنائع ١/١١٢ زکریا، الفتاویٰ التاتارخانیة ٣٧٧ زکریا)


اسی طرح المراقی الفلاح میں ہے۔

(ویسن المبالغۃ فی المضمضۃ) وھی ایصال الماء لراس الحلق والمبالغۃ فی (الاستنشاق) وھی ایصالہ الی ما فوق المارن۔ ( المراقی الفلاح فصل فی سنن الوضو، ص٣٩)


لہذا صورتِ مسئولہ میں غسل کے اندر صرف کلی کرنا اور ناک میں پانی پہنچانا فرض ہے ، اگر اچھی طرح سے کلی کرلی جائے تو فرض ادا ہوجاتا ہے، غرارے کرنا نہ لازم ہے اور نہ ہی فرض ہے، البتہ کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرنا سنت ہے۔ واللہ أعلم بالصواب۔


العارض: مفتی آصف گودھروی

خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا



کوئی تبصرے نہیں: