سوال
السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
قبر پر جو خود بخود گھاس اگتا ہے اسکو کاٹ سکتے ہے یا نہیں کاٹ سکتے؟ اور قبر پر اس نیت سے گھاس اگانا کے یہ گھاس قبر والے کے لۓ مغفرت اور ذکر کرتی ہے، جیسے کہ رسول اللہ ﷺنے دو قبروں پر تر ٹہنی اپنے دستِ اقدس سے گاڑھی تھی، کیا ایسا کرنا صحیح ہے۔ ہمارے گاؤں میں یہ بہت عام ہو گیا ہے؟
سائل: حاجی جاوید اجینی
الجواب وباللہ التوفیق
باسمہ سبحانہ وتعالیٰ
قبرستان کی ہری گھاس کاٹنے سے علماء نے منع فرمایا ہے، کیونکہ قبرستان کی ہری گھاس اللہ تعالی کی حمد و ثناء بیان کرتی ہے، جس سے اللہ تعالی کی رحمت نازل ہوتی ہے اور مردوں کو اس سے فائدہ حاصل ہوتا ہے، لہذا اگر ہری گھاس کو کاٹ دیا جائے گا، تو مردے اس فائدے سے محروم رہیں گے، البتہ قبرستان کی صفائی کی ضرورت ہو اور قبروں کی بے حرمتی کے بغیر اس کی صفائی ممکن ہو تو اس میں مضائقہ نہیں ،صفائی کی جاسکتی ہے ،اورراستہ صاف کرنے میں ہری بھری گھاس یا درخت بھی کاٹے جاسکتے ہیں، البتہ ہری بھری گھاس یا درختوں کوکاٹے بغیر راستہ یا صفائی ممکن ہوتو نہ کاٹا جائے کہ ان کی تسبیح سے میت کو انس حاصل ہوتا ہے۔
اسی طرح قبروں کو چھوڑ کر قبروں کے ارد گرد کی خراب ہونے والی گھاس کو صفائی یا راستہ بنانے کی خاطر کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے، اور اگر قبروں کے اوپر کی گھاس اصلاح اور درستگی کے لئے کاٹی جائے، تو اس میں بھی کوئی حرج نہیں ہے اسی طرح قبرستان کی ہری گھاس خشک ہوجائے، تو اس کے کاٹنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔
ویکرہ أیضًا قطع النبات الرطب والحشیش من المقبرة دون الیابس كما في البحر والدرر وشرح المنية وعلله في الإمداد بأنه ما دام رطبا يسبح الله - تعالى - فيؤنس الميت وتنزل بذكره الرحمة اهـ ونحوه في الخانية. (شامی۱۵۵/٣ط:زکریا)
وکرہ قلع الحشیش الرطب وکذا الشجر من المقبرة؛ لأنہ ما دام رطبًا یسبِّح اللّٰہ تعالیٰ فیونس المیت وتنزل بذکر اللّٰہ تعالیٰ الرحمة، ولا بأس بقلع الیابس منہا أی الحشیش والشجر لزوال المقصود۔ (مراقی الفلاح / فصل فی زیارة القبور ۳۴۲کراچی)
قبروں پر پودے لگانا یا گھاس اگانا مسنون نہیں ہے، رسول اللہ ﷺنے دو قبروں پر تر ٹہنی اپنے دستِ اقدس سے گاڑھی تھی، یہ آپ کی خصوصیت تھی، چنانچہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺکا دو قبروں پر گزر ہوا تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ ان دونوں مردوں کو عذاب ہورہا ہے، پھر آپ ﷺ نے کھجور کے درخت کی ایک تر شاخ لے کر اسے درمیان سے چیر کر دو حصے کردئے، پھر ایک حصہ ایک قبر پر اور دوسرا حصہ دوسری قبر پر گاڑ دیا، لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! یہ آپ نے کس مصلحت سے کیا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ امید ہے کہ جب تک یہ خشک نہ ہوں، ان سے عذاب ہلکا ہو جاوے۔
حدثنا عثمان قال : حدثنا جرير ، عن منصور ، عن مجاهد ، عن ابن عباس قال : مر النبي صلى الله عليه وسلم بحائط من حيطان المدينة ، أو مكة ، فسمع صوت إنسانين يعذبان في قبورهما ، فقال النبي صلى الله عليه وسلم : يعذبان ، وما يعذبان في كبير . ثم قال : بلى ، كان أحدهما لا يستتر من بوله ، وكان الآخر يمشي بالنميمة" . ثم دعا بجريدة فكسرها كسرتين ، فوضع على كل قبر منهما كسرة ، فقيل له : يا رسول الله ، لم فعلت هذا؟ قال صلى الله عليه وسلم : لعله أن يخفف عنهما ما لم تيبسا . أو : إلى أن ييبسا .(عمدۃ القاری ٣/٧٠)
شارحینِ حدیث نے اس حدیث کے متعلق فرمایا ہے کہ یہ عمل صرف حضور ﷺ کے ساتھ خاص تھا؛ کیوں کہ آپ ﷺ کو بذریعہ وحی ان مردوں کے عذاب میں مبتلا ہونے کی خبر دی گئی تھی، اور یہ بھی بتایا گیا تھا کہ آپ ﷺ کے اس طرح ٹہنی لگانے سے ان کے عذاب میں تخفیف کردی جائے گی، اسی لیے آپ ﷺ نے یہ عمل صرف ان ہی دو مردوں کی قبر کے ساتھ کیا تھا، عمومی طور سے آپ ﷺ کا معمول قبروں پر ٹہنی گاڑنے کا نہیں تھا، رسول اللہ ﷺ کے بعد تو کسی کو بذریعہ وحی یہ بات معلوم نہیں ہوسکتی ہے کہ کس قبر والے کو عذاب ہورہا ہے اور کس کو نہیں، اسی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین نے بھی آپ ﷺ کے بعد اس عمل کو اپنا معمول نہیں بنایا۔
لہٰذا قبروں کی مٹی پر باقاعدہ پودے لگانے یا گھانس اگانا مسنون نہیں ہے اور یہ عمل رسول اللہ ﷺ کے دو معذب (عذاب میں مبتلا) لوگوں کی قبروں پر ٹہنی لگانے کی طرح نہیں ہے، اس لیے اس سے اجتناب کرنا چاہیے۔
العارض: مفتی آصف گودھروی
خادم: مدرسہ ابن عباس گودھرا
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں